@AamirLiaquat response to Ummat in Amaan Ramazan 27-7-2013
#AmaanRamazan by @AamirLiaquat
توہین رمضان المبارک پر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا شدید رد عمل
اتنی تو نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔۔۔۔۔۔ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
دنیا کی سب سے زیادہ دیکھی جانےوالی جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی مقبول ترین براہ راست ’’امان رمضان‘‘ نشریات میں ہر دلعزیز میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ’’توہین رمضان المبارک‘‘ کے بارے میں لکھے جانے والے ایک کالم کے جواب میں اپنے شدید غم و غصہ اور رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک پر ہم سب کی جان قربان ۔۔
یہ جو آپ یہاں پر خوشیوں کے لیے آتے ہیں، کچھ دیر کے لیے خوش ہوجاتے ہیں، بالخصوص اس شہر میں، جہاں خوشیوں کا فقدان ہے، جہاں بہت مشکلوں سے خوشیاں ملتی ہیں، جہاں غریبوں کی مدد کی جاتی ہے، دکھیاروں کا بیوائوں کا خیال کیا جاتا ہے، جہاں ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے، محبت کرتے ہیں۔۔۔ وہاں ہمارے اس عمل سے بہت سے لوگ نفرت بھی کرتے ہیں۔ اور انہیں اس لیے نفرت ہے کہ انہوں نے کبھی کسی سے محبت کرنا سیکھا ہی نہیں، ان کو پیار کرنا آتا ہی نہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پر جو لوگ آتے ہیں وہ شاید انعام کے لالچ میں آتے ہیں۔ یا شاید یہاں پر کوئی مداری انہیں نچاتا ہے، انہیں نہیں معلوم کہ یہاں پہ لوگ خوشیوں کے لیے آتے ہیں، مسکرانے کے لیے آتے ہیں، سکون کے لیے آتے ہیں۔
لیکن ایسے لوگ اپنے کالموں کے ذریعے، بہت ہی گھٹیا کالم ’’امت اخبار‘‘ میں ایک ڈاکٹر ضیا الدین نے لکھا ہے میں اسے دنیا کا گھٹیا ترین آدمی قرار دیتا ہوں، اس سے بڑا گھٹیا انسان کوئی نہیں۔ جس کو یہ نہ معلوم ہو کہ لوگ یہاں پر خوشیوں کے لیے آتے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ اس ٹرانسمیشن کے بعد سے رحمت کا عشرہ منہ چھپائے پھر رہا ہے، اس سے بڑا گستاخ کون ہوگا؟ جو رمضان کو کہہ رہا ہے کہ منہ چھپائے پھر رہا ہے، رمضان منہ چھپا کر پھر سکتا ہے؟۔۔۔ رمضان کا رحمت کا عشرہ کبھی منہ چھپا سکتا ہے؟ ۔۔۔ مغفعرت کا عشرہ کہیں چھپ سکتا ہے۔۔۔۔ یہ تو اللہ کی رحمت ہے جو اس شہر امان میں سب پر نازل ہو رہی ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ نام نہاد لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ٹھیکیداری سمجھ رکھی ہے۔ امت اخبار کا کالم نگار ہے ڈاکٹر ضیاء الدین ۔۔۔ میں نے اس سے زیادہ گھٹیا آدمی نہیں دیکھا۔ جس نے سوائے لوگوں کے خلاف لکھنے کے کچھ نہیں کیا، جس کے قلم سے محبت نہ نکلتی ہو وہ نفرت ہی کی بات کرے گا۔ اس شہر کا دشمن، اس شہر کے لوگوں کا دشمن، اس شہر کی خوشیوں کا دشمن۔۔۔ تو میں کبھی جواب نہیں دیتا ہوں ۔۔ تو آج میں جواب دیتا ہوں کہ میں عامر لیاقت ۔۔ کو کمزور نہ سمجھو، جواب دینے پر آگیا تو تم سب کی اینٹیں اکھاڑ کر پھینک دوں گا میں کبھی جواب نہیں دیتا ہوں۔ میں جواب نہیں دیتا ہوں جس دن جواب دینے آگیا۔۔۔ پورا شہر میرے ساتھ ہے، میں اگر جواب دینے پر آگیا تو۔۔۔لہذا سب اپنی اوقات میں رہیں۔۔۔ اپنے اپنے قلم کا وہی حق ادا کریں جو ادا کررہے ہیں۔۔ ورنہ یہ سارا مجمع جو یہاں پر موجود ہے، جو خوشیوں کے لیے آتے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ کس طرح سے اپنی خوشیاں حاصل کرنی ہیں، سب اپنی اوقات میں رہیں، اپنی اوقات میں۔
اور آپ کو ایک اور بات بتائوں۔۔ امت کے رپورٹر مجھے فون کرتے ہیں، فیملی کے لیے پاس لے دو۔ نام لے دوں؟ نام لے دوں تو اسلام آباد کے مرزا عبدالقدوس کی فیملی یہاں پر آکے جا چکی ہے۔ فیملی کے لیے پاس چاہئیں مگر کالم خلاف لکھیں گے۔
اتنی تو نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔۔۔۔۔۔ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
آج میں نے زندگی میں، چودہ سال میں پہلی مرتبہ جواب دیا ہے، اور میں کبھی جواب نہیں دیتا۔بڑے الزامات لگتے ہیں مجھ پر، کبھی ڈگریوں پر، کبھی کسی چیز پر، میں ہمیشہ خاموش رہتا ہوں لیکن یہ رمضان کی توہین کی ہے کہ رحمت کا عشرہ منہ چھپا کر پھر رہا ہے۔ کبھی رحمت کا عشرہ منہ چھپا کر نہیں پھر سکتا۔ ہم قربان رمضان پر، ہم سب قربان رمضان المبارک پر۔۔۔
آج مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ یہ جو سب کچھ کرتے ہیں، کس وجہ سے کرتے ہیں، آیا خداداد صلاحیت ہے، ماں باپ کی تربیت ہے یا مطالعہ کا ذوق و شوق ہے۔ تو میں نے جواب دیا کہ خدا کی عطا کردہ صلاحیت نہ ہوتی تو میں کبھی کچھ نہ کر سکتا، ماں باپ کی تربیت نہ ہوتی تو اس مقام پر نہ پہنچتا، کہ کتنا کچھ برداشت کرتا ہوں میں لوگوں کا کہا ہوا، یہ میرے ماں باپ کی تربیت ہے اور رہی بات یہ کہ یہ تمام معلومات علمی ذوق و شوق کے بغیر آ نہیں سکتیں ۔۔۔ تو تینوں چیزیں موجود ہوں تو تب کہیں جاکر انسان اس قابل ہوتا ہے کہ دوسروں کی اتنی گالیاں سنے، اور لوگ کیا کچھ نہیں کہتے۔۔۔ اور کب نہیں کہا۔۔ کس دور میں نہیں کہا ۔۔۔ ہر دور میں کہا گیا ہے۔
جب مرجاتے ہیں تو پھر اس کو روتے ہیں یاد کرکے۔۔۔ یہ مردہ پرستی ہے۔ ابھی زندہ ہوں سب مجھے برا بھلا کہہ رہے ہیں جب مرجائوں گا تو پوری قوم مجھے یاد کرے گی، میں یہ بھی جانتا ہوں یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ جب مرجائوں گا تو سب یاد کریں گے لیکن ابھی سب کو تکلیف اس لیے ہے کہ کوئی یہاں پر غریبوں کو رکشے نہیں دے پا رہا، کوئی کسی کا جہیز نہیں دے پا رہا، کوئی اس شہر معاصات کو صحیح طرح سمجھ نہیں رہا، کہ غریبوں کی مدد کرنی ہے، غریبوں کے دکھ درد کو بانٹنا ہے، اور جو بانٹ رہا ہے اسے دیکھ کر انہیں تکلیف ہو رہی ہے کہ یہ ہم کیوں نہیں کر پا رہے؟ ۔۔۔ آپ کو منع تو نہیں کیا، یہ رمضان تو سب کا ہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں جو لوگ آتے ہیں غریب علاقوں سے آتے ہیں لہذا انہیں احساس نہیں ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں، میں غریب علاقوں سے آنے والے غرباء کو بشارت دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حشر فرمایا تھا کہ مسکینوں اور غریبوں کے ساتھ ہو۔ تو غریب ہی تو سب کچھ ہیں، غریبوں کے ساتھ ہی تو سب کچھ کرنا ہے یہ سب کچھ ہمیں مل کر کرنا ہوتا ہے۔
facebook.com/AmaanRamazanOfficial
http://amaanramazan.geo.tv/
Videos:http://www.dailymotion.com/AmaanramzanOfficial
#AmaanRamazan by @AamirLiaquat
توہین رمضان المبارک پر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا شدید رد عمل
اتنی تو نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔۔۔۔۔۔ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
دنیا کی سب سے زیادہ دیکھی جانےوالی جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی مقبول ترین براہ راست ’’امان رمضان‘‘ نشریات میں ہر دلعزیز میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ’’توہین رمضان المبارک‘‘ کے بارے میں لکھے جانے والے ایک کالم کے جواب میں اپنے شدید غم و غصہ اور رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک پر ہم سب کی جان قربان ۔۔
یہ جو آپ یہاں پر خوشیوں کے لیے آتے ہیں، کچھ دیر کے لیے خوش ہوجاتے ہیں، بالخصوص اس شہر میں، جہاں خوشیوں کا فقدان ہے، جہاں بہت مشکلوں سے خوشیاں ملتی ہیں، جہاں غریبوں کی مدد کی جاتی ہے، دکھیاروں کا بیوائوں کا خیال کیا جاتا ہے، جہاں ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے، محبت کرتے ہیں۔۔۔ وہاں ہمارے اس عمل سے بہت سے لوگ نفرت بھی کرتے ہیں۔ اور انہیں اس لیے نفرت ہے کہ انہوں نے کبھی کسی سے محبت کرنا سیکھا ہی نہیں، ان کو پیار کرنا آتا ہی نہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پر جو لوگ آتے ہیں وہ شاید انعام کے لالچ میں آتے ہیں۔ یا شاید یہاں پر کوئی مداری انہیں نچاتا ہے، انہیں نہیں معلوم کہ یہاں پہ لوگ خوشیوں کے لیے آتے ہیں، مسکرانے کے لیے آتے ہیں، سکون کے لیے آتے ہیں۔
لیکن ایسے لوگ اپنے کالموں کے ذریعے، بہت ہی گھٹیا کالم ’’امت اخبار‘‘ میں ایک ڈاکٹر ضیا الدین نے لکھا ہے میں اسے دنیا کا گھٹیا ترین آدمی قرار دیتا ہوں، اس سے بڑا گھٹیا انسان کوئی نہیں۔ جس کو یہ نہ معلوم ہو کہ لوگ یہاں پر خوشیوں کے لیے آتے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ اس ٹرانسمیشن کے بعد سے رحمت کا عشرہ منہ چھپائے پھر رہا ہے، اس سے بڑا گستاخ کون ہوگا؟ جو رمضان کو کہہ رہا ہے کہ منہ چھپائے پھر رہا ہے، رمضان منہ چھپا کر پھر سکتا ہے؟۔۔۔ رمضان کا رحمت کا عشرہ کبھی منہ چھپا سکتا ہے؟ ۔۔۔ مغفعرت کا عشرہ کہیں چھپ سکتا ہے۔۔۔۔ یہ تو اللہ کی رحمت ہے جو اس شہر امان میں سب پر نازل ہو رہی ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ نام نہاد لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ٹھیکیداری سمجھ رکھی ہے۔ امت اخبار کا کالم نگار ہے ڈاکٹر ضیاء الدین ۔۔۔ میں نے اس سے زیادہ گھٹیا آدمی نہیں دیکھا۔ جس نے سوائے لوگوں کے خلاف لکھنے کے کچھ نہیں کیا، جس کے قلم سے محبت نہ نکلتی ہو وہ نفرت ہی کی بات کرے گا۔ اس شہر کا دشمن، اس شہر کے لوگوں کا دشمن، اس شہر کی خوشیوں کا دشمن۔۔۔ تو میں کبھی جواب نہیں دیتا ہوں ۔۔ تو آج میں جواب دیتا ہوں کہ میں عامر لیاقت ۔۔ کو کمزور نہ سمجھو، جواب دینے پر آگیا تو تم سب کی اینٹیں اکھاڑ کر پھینک دوں گا میں کبھی جواب نہیں دیتا ہوں۔ میں جواب نہیں دیتا ہوں جس دن جواب دینے آگیا۔۔۔ پورا شہر میرے ساتھ ہے، میں اگر جواب دینے پر آگیا تو۔۔۔لہذا سب اپنی اوقات میں رہیں۔۔۔ اپنے اپنے قلم کا وہی حق ادا کریں جو ادا کررہے ہیں۔۔ ورنہ یہ سارا مجمع جو یہاں پر موجود ہے، جو خوشیوں کے لیے آتے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ کس طرح سے اپنی خوشیاں حاصل کرنی ہیں، سب اپنی اوقات میں رہیں، اپنی اوقات میں۔
اور آپ کو ایک اور بات بتائوں۔۔ امت کے رپورٹر مجھے فون کرتے ہیں، فیملی کے لیے پاس لے دو۔ نام لے دوں؟ نام لے دوں تو اسلام آباد کے مرزا عبدالقدوس کی فیملی یہاں پر آکے جا چکی ہے۔ فیملی کے لیے پاس چاہئیں مگر کالم خلاف لکھیں گے۔
اتنی تو نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔۔۔۔۔۔ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
آج میں نے زندگی میں، چودہ سال میں پہلی مرتبہ جواب دیا ہے، اور میں کبھی جواب نہیں دیتا۔بڑے الزامات لگتے ہیں مجھ پر، کبھی ڈگریوں پر، کبھی کسی چیز پر، میں ہمیشہ خاموش رہتا ہوں لیکن یہ رمضان کی توہین کی ہے کہ رحمت کا عشرہ منہ چھپا کر پھر رہا ہے۔ کبھی رحمت کا عشرہ منہ چھپا کر نہیں پھر سکتا۔ ہم قربان رمضان پر، ہم سب قربان رمضان المبارک پر۔۔۔
آج مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ یہ جو سب کچھ کرتے ہیں، کس وجہ سے کرتے ہیں، آیا خداداد صلاحیت ہے، ماں باپ کی تربیت ہے یا مطالعہ کا ذوق و شوق ہے۔ تو میں نے جواب دیا کہ خدا کی عطا کردہ صلاحیت نہ ہوتی تو میں کبھی کچھ نہ کر سکتا، ماں باپ کی تربیت نہ ہوتی تو اس مقام پر نہ پہنچتا، کہ کتنا کچھ برداشت کرتا ہوں میں لوگوں کا کہا ہوا، یہ میرے ماں باپ کی تربیت ہے اور رہی بات یہ کہ یہ تمام معلومات علمی ذوق و شوق کے بغیر آ نہیں سکتیں ۔۔۔ تو تینوں چیزیں موجود ہوں تو تب کہیں جاکر انسان اس قابل ہوتا ہے کہ دوسروں کی اتنی گالیاں سنے، اور لوگ کیا کچھ نہیں کہتے۔۔۔ اور کب نہیں کہا۔۔ کس دور میں نہیں کہا ۔۔۔ ہر دور میں کہا گیا ہے۔
جب مرجاتے ہیں تو پھر اس کو روتے ہیں یاد کرکے۔۔۔ یہ مردہ پرستی ہے۔ ابھی زندہ ہوں سب مجھے برا بھلا کہہ رہے ہیں جب مرجائوں گا تو پوری قوم مجھے یاد کرے گی، میں یہ بھی جانتا ہوں یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ جب مرجائوں گا تو سب یاد کریں گے لیکن ابھی سب کو تکلیف اس لیے ہے کہ کوئی یہاں پر غریبوں کو رکشے نہیں دے پا رہا، کوئی کسی کا جہیز نہیں دے پا رہا، کوئی اس شہر معاصات کو صحیح طرح سمجھ نہیں رہا، کہ غریبوں کی مدد کرنی ہے، غریبوں کے دکھ درد کو بانٹنا ہے، اور جو بانٹ رہا ہے اسے دیکھ کر انہیں تکلیف ہو رہی ہے کہ یہ ہم کیوں نہیں کر پا رہے؟ ۔۔۔ آپ کو منع تو نہیں کیا، یہ رمضان تو سب کا ہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں جو لوگ آتے ہیں غریب علاقوں سے آتے ہیں لہذا انہیں احساس نہیں ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں، میں غریب علاقوں سے آنے والے غرباء کو بشارت دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حشر فرمایا تھا کہ مسکینوں اور غریبوں کے ساتھ ہو۔ تو غریب ہی تو سب کچھ ہیں، غریبوں کے ساتھ ہی تو سب کچھ کرنا ہے یہ سب کچھ ہمیں مل کر کرنا ہوتا ہے۔
facebook.com/AmaanRamazanOfficial
http://amaanramazan.geo.tv/
Videos:http://www.dailymotion.com/AmaanramzanOfficial
Category
🗞
News