History of Sultan slahuddin ayoubi. سلطان صلاح الدین ایوبی کی تاریخ

  • 24 days ago
History of Sultan slahuddin ayoubi. سلطان صلاح الدین ایوبی کی تاریخ
فاتح بیت المقدس ،مصر ،شام یمن عراق اور یروشلم سلطان صلاح الدین ایوبی 1138 ء میں عراق کے شہر تقریت میں پیدا ہوئے ان کے تعارف کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کے بارے میں شکست کے بعد گرفتار ایک صلیبی کمانڈر نے کہا تھا کہ آج کے بعد ہم مسلمانوں سے میدان جنگ میں لڑنے کی بجائے انکی عورتوں میں اس قدر فحاشی پھیلا دیں گے کہ وہ پھر سے کبھی سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مرد مجاہد پیدا ہی نہ کر پائیں۔ وہ صلاح الدین ایوبی جس سے ایک بار پوچھا گیا کہ حضرت ہوش سنبھالنے کے بعد آپ کو کبھی مسکراتا ہوا دیکھا ہی نہیں گیا تب اس نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے میں روز قیامت اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں میرا رب مجھ سے یہ پوچھ ہی نہ لے کہ صلاح الدین بیت المقدس غیروں کے قبضے میں رہا اور تو مسکراتا رہا ۔
اسلام کے اس عظیم ہیرو کے سینے کے اندر رب نے غیرت جرآت اور جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا جہاد سے لگاؤ اس قدر شدید تھا کہ ایک مرتبہ اس کے دھڑ کے نچلے حصے میں پھوڑے نکل آئے جس کی وجہ سے وہ بیٹھ کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے تھے مگر پھر بھی اسکی جہاد کی سرگرمیوں میں زرا برابر بھی فرق نہ آیا۔ حکیموں نے انہیں آرام کا مشورہ دیا مگر وہ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک میں صبح سے ظہر ، اور عصر سے مغرب تک گھوڑے پر بیٹھ کر لشکر کی قیادت نہ کروں مجھے سکون ہی نہیں ملتا ۔
ایک دفعہ بھیس بدلے ایک یہودی جاسوس نے انہیں جہاد کی بجائے دعا کے زریعے بیت المقدس فتح کرنے کا مشورہ دیا تو سلطان فوراً بھانپ گئے کہ یہ جاسوس ہے اور اسی وقت اسکا سر اپنی تلوار سے قلم کر دیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی ایک ہی وقت میں کئی کئی محاز پر دشمن کے ساتھ جنگ میں مصروف رہتے تھے حتیٰ کہ مورخین نے لکھا ہے کہ انہیں ایک دفعہ سات محازوں پر دشمن سے لڑنا پڑا مگر اس نے کبھی ہمت نہ ہاری۔

وہ بیت المقدس جو آج کے قریباً 56 اسلامی ممالک سے آزاد نہیں ہو پارہا اس مرد مجاہد نے اکیلے 1187ء میں 88 سال ںعد نہ صرف صلیبیوں سے آزاد کروایا بلکہ یروشلم میں بھی انہیں شکست فاش دے کر دشمن کو ناکوں چنے چبوا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اسکے بعد 761 سال تک بیت المقدس مسلمانوں کے پاس رہا۔

اس عظیم جرنیل کی قربانیاں رب العالمین کو اتنی پسند آئیں کہ مالک نے ہر غیرت مند مسلمان کے دل میں انکی محبت پیدا کر دی ہے۔ اسلام کا یہ عظیم لیڈر اور ہیرو 1193 میں 55 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا مگر جاتے جاتے مسلم امہ کو یہ درس دے گیا کہ مسلمان افرادی قوت اور زور بازو پر نہیں بلکہ غیرت اور جذبہ ایمانی سے لڑتے ہیں ۔

Recommended