• 2 days ago
Mast Rakho Zikar-o-Fikar-e-Subhgahi Mein Isse
Pukhta Tar Kar Do Mazaaj-e-Khanqahi Mein Isse

Keep them well absorbed in the remembrance and meditation of the early dawn
Strengthen further their inclination toward monastic seclusion.

ابلیس اپنے مُشیروں سے
مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے

یہ شعر امتِ مسلمہ کے دو مختلف مگر مہلک رویوں کی طرف اشارہ کرتا ہے، اگرچہ ان میں سے ایک براہِ راست ذکر نہیں کیا گیا، لیکن مکمل تصویر کے لیے دونوں پہلوؤں کو سمجھنا ضروری ہے:

1. ذکر و فکر میں مست رہنا مگر عمل سے دور ہونا:
ابلیس چاہتا ہے کہ مسلمان صرف رسمی عبادات، ذکر، اور فکرِ صبحگاہی میں مگن رہیں، لیکن دین کے عملی تقاضوں، جدوجہد، اور دنیاوی معاملات سے کنارہ کش ہو جائیں۔ یوں وہ خانقاہی زندگی کا شکار ہو کر قوم کی تعمیر و ترقی اور اجتماعی فلاح کے لیے غیر مؤثر بن جائیں۔ یہ رویہ امت کو عمل سے محروم کر کے زوال کی طرف دھکیل دیتا ہے۔

2. دنیاوی لذتوں اور مادہ پرستی میں گم ہونا:
اگرچہ شعر میں براہِ راست ذکر نہیں، لیکن امت کے زوال کا دوسرا پہلو مادہ پرستی اور دنیاوی لذتوں میں کھو جانا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جہاں انسان اپنے خالق کو بھول کر دنیاوی خواہشات، دولت، اور نفس کی غلامی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایسا رویہ روحانی زوال اور اخلاقی انحطاط کا سبب بنتا ہے۔

علامہ اقبال اس شعر کے ذریعے امتِ مسلمہ کو ایک گہرا سبق دیتے ہیں: دین کا مقصد صرف ظاہری عبادات اور رسمی ذکر و فکر نہیں، بلکہ عمل، شعور، اور دنیاوی جدوجہد کے ذریعے انسانیت کی رہنمائی ہے۔ اسی طرح، دنیاوی مال و دولت اور خواہشات میں کھو جانا بھی روحانی زوال اور آخرت کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ شعر مسلمانوں کو انتباہ کرتا ہے کہ وہ ان دونوں انتہاؤں سے بچیں۔ نہ خانقاہی زندگی کی محدودیت میں قید ہوں اور نہ مادہ پرستی کے جال میں پھنسیں۔ حقیقی کامیابی تب ہی ممکن ہے جب عبادات کے ساتھ شعور، عمل، اور دنیاوی ذمہ داریوں کو خدا کی رضا کے لیے پورا کیا جائے۔ توازن ہی وہ راستہ ہے جو دین و دنیا دونوں میں کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔

(Armaghan-e-Hijaz-01) Iblees Ki Majlis-e-Shura (ابلیس کی مجلس شوری) The Devil's Conference

Category

📚
Learning

Recommended