Farhat Ishtiaq is a renowned Pakistani writer, author, and screenwriter known for her captivating storytelling and thought-provoking themes. Her writing style is characterized by:
1. Emotional Depth: She skillfully explores complex emotions, creating relatable characters that resonate with readers.
2. Social Commentary: Her stories often address societal issues, sparking meaningful conversations.
3. Strong Female Protagonists: Empowered women are central to her narratives, challenging traditional gender roles.
4. Intricate Plotting: Engaging storylines with unexpected twists keep audiences engaged.
5. Realistic Dialogue: Authentic conversations add authenticity to her stories.
6. Cultural Sensitivity: Her work reflects Pakistan's cultural nuances, making her stories uniquely local and globally relevant.
Farhat Ishtiaq's writing has captivated audiences in novels, TV dramas, and audio series like "Jo Bache Hain Sang Samait Lo." What's your favorite work by Farhat Ishtiaq?
Awaz Kahani Series:
Novel: Diyar-e-Dil
Episode: 2
Follow the Farhat Ishtiaq Official channel on WhatsApp:
https://whatsapp.com/channel/0029VayFx2IKQuJC097AOE2k
#audiobook #youtubetips #farhatishtiaq #yemeradil #pakistaninovels #growonyoutube #youtubegrowth #audiolibrary #youtubehindi #boostviews
#romantic #urduadab #stories #urdunovels #romanticstory
#pakistanidrama #romanticnovel #audiorecording #episode
#youtube #upcomingdramas #urdu_story #romanticnovel
#urdu_kahani #friendsship #urduaudiorecordingnovels
#novels #UrduNovels #Friendsship #Romanticnovels
#farhatishtiaqnovels #Bestnovelstories #urdu #Romantic
#pakistanidrama #kahaniyah #bestnovelsCollection
#humtv #romance #love #urdubooks #Novelsandstories
#upcomingdramas #UrduAudioBooks #romantic #dramareviews
#upcomingdramas #RomanticAudioStories #MysteryAudioBooks #ThrillerNovels #FantasyAudioSeries
#ClassicLiterature #HistoricalFiction #ScienceFictionBooks #HorrorStories
#DramaNarratives #AdventureTales #ForBookLovers #RelaxAndListen #StudyCompanion #CalmingVoices #NightTimeStories #AudiobookFans #ReadersChoice #StayInspired #UrduNovels #EnglishFiction #HindiAudioBooks #ArabicNarratives #SpanishNovels #FrenchAudioStories #FullAudioBook #ChapterWiseAudio
#ListenAndLearn #ImmersiveStories #TrendingStories #BingeWorthy
#NewReleases #youtubeaudiobooks #YouTubeStorySeries #ExclusiveContent
Jo Bache hain Sang Samait Lo Novel | Season 1
https://www.youtube.com/watch?v=iw40fDKfe0k&list=PLgHL2TVjeOoRsTq2YWk0nC9bjq8zMXIqQ
Taqreeb Kuch to Behr e Mulaqat Chahiye
https://www.youtube.com/watch?v=asWeD04Jgwg&list=PLgHL2TVjeOoTkr1gp84e3DuRIsqZ5ngsW
Mosam-E-Gul | Audio Series
https://www.youtube.com/watch?v=1N5qs0lGQ9E&list=PLgHL2TVjeOoTmezNfehJJewZZXWLCttb8
Don’t forget to subscribe @FarhatIshtiaqOfficial
1. Emotional Depth: She skillfully explores complex emotions, creating relatable characters that resonate with readers.
2. Social Commentary: Her stories often address societal issues, sparking meaningful conversations.
3. Strong Female Protagonists: Empowered women are central to her narratives, challenging traditional gender roles.
4. Intricate Plotting: Engaging storylines with unexpected twists keep audiences engaged.
5. Realistic Dialogue: Authentic conversations add authenticity to her stories.
6. Cultural Sensitivity: Her work reflects Pakistan's cultural nuances, making her stories uniquely local and globally relevant.
Farhat Ishtiaq's writing has captivated audiences in novels, TV dramas, and audio series like "Jo Bache Hain Sang Samait Lo." What's your favorite work by Farhat Ishtiaq?
Awaz Kahani Series:
Novel: Diyar-e-Dil
Episode: 2
Follow the Farhat Ishtiaq Official channel on WhatsApp:
https://whatsapp.com/channel/0029VayFx2IKQuJC097AOE2k
#audiobook #youtubetips #farhatishtiaq #yemeradil #pakistaninovels #growonyoutube #youtubegrowth #audiolibrary #youtubehindi #boostviews
#romantic #urduadab #stories #urdunovels #romanticstory
#pakistanidrama #romanticnovel #audiorecording #episode
#youtube #upcomingdramas #urdu_story #romanticnovel
#urdu_kahani #friendsship #urduaudiorecordingnovels
#novels #UrduNovels #Friendsship #Romanticnovels
#farhatishtiaqnovels #Bestnovelstories #urdu #Romantic
#pakistanidrama #kahaniyah #bestnovelsCollection
#humtv #romance #love #urdubooks #Novelsandstories
#upcomingdramas #UrduAudioBooks #romantic #dramareviews
#upcomingdramas #RomanticAudioStories #MysteryAudioBooks #ThrillerNovels #FantasyAudioSeries
#ClassicLiterature #HistoricalFiction #ScienceFictionBooks #HorrorStories
#DramaNarratives #AdventureTales #ForBookLovers #RelaxAndListen #StudyCompanion #CalmingVoices #NightTimeStories #AudiobookFans #ReadersChoice #StayInspired #UrduNovels #EnglishFiction #HindiAudioBooks #ArabicNarratives #SpanishNovels #FrenchAudioStories #FullAudioBook #ChapterWiseAudio
#ListenAndLearn #ImmersiveStories #TrendingStories #BingeWorthy
#NewReleases #youtubeaudiobooks #YouTubeStorySeries #ExclusiveContent
Jo Bache hain Sang Samait Lo Novel | Season 1
https://www.youtube.com/watch?v=iw40fDKfe0k&list=PLgHL2TVjeOoRsTq2YWk0nC9bjq8zMXIqQ
Taqreeb Kuch to Behr e Mulaqat Chahiye
https://www.youtube.com/watch?v=asWeD04Jgwg&list=PLgHL2TVjeOoTkr1gp84e3DuRIsqZ5ngsW
Mosam-E-Gul | Audio Series
https://www.youtube.com/watch?v=1N5qs0lGQ9E&list=PLgHL2TVjeOoTmezNfehJJewZZXWLCttb8
Don’t forget to subscribe @FarhatIshtiaqOfficial
Category
😹
FunTranscript
00:00ڈیار دل تحریر وردشتیا قص نمبر دو
00:30اسے چہرہ پڑھ لینے کا کوئی زیادہ دعویٰ تو نہیں تھا لیکن یہاں قدم رکھتے ہی زرمینے اور آقا جان کے بے تہاشا حیرت لیے چہروں نے اسے یہ اچھی طرح بتا دیا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی اس کی آمد سے آگا اور واقف نہیں تھا
00:43آقا جان اس کی سوچ اور اس کی نگاہوں سے انجان اسے اپنے پاس بلا رہے تھے
00:47وہاں کیوں گھڑی ہو میری جان ادھر آؤ میرے قریب آؤ میں یقین کرلوں میری فارہ میرے پاس آئی ہے
00:53ان کے جھریوں زیادہ چہرے پر بڑی والہانہ خوشی چھلک رہی تھی یوں جیسے اس کا بس نہیں چل رہا تھا خود اٹھ کر دوڑتے ہوئے اس کے پاس آ جائیں اور اسے اپنے گلے سے لگا لیں
01:03پوتی کو وہ اپنے پاس دیکھ کر بکھڑتی بے تہاشا خوشی اپنی جیت کی تھی یا بہو کو شکست دے دینے کی یا ان دونوں کی وہ اس فیصلہ نہ کر پائی
01:12ایک پل کچھ سوچا اور پھر ان کے قریب آ گئی
01:15ظرمی نے اس دوران کمرے سے نکل کر جا چکی تھی اور اب اس کی کرسی خالی تھی وہ وہاں بیٹھنے لگی
01:20تب وہ بے ساکتہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولے یہاں میرے پاس آ کر بیٹھو میں اپنی بیٹی کو جی بھر کر دیکھنا اور پیار کرنا چاہتا ہوں
01:27وہ اچھکچاتے ہوئے انداز میں ان کے بیٹھ پر قریب آ کر بیٹھ گئی
01:32وہ اپنے جھریوں زیادہ کاپتے ہاتھوں میں اس کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ایک ٹک سے دیکھے جا رہے تھے
01:37یہ ولی لائے ہے نا تمہیں
01:39بڑا بتتمیز ہے یہ لڑکا مجھے بتا کر بھی نہیں گیا کہ فارا کو لینے جا رہا ہوں
01:43تم آرام سے بیٹھو سفر میں تھک گئی ہوگی
01:46وہ اس سے محبت کرتے ہیں وہ جانتی تھی
01:48ہاں ان کی محبت کا اپنا ایک الگ انداز تھا
01:51وہ جن سے محبت کیا کرتے تھے ان کی زندگی بھی خود جینے کی کوشش کرتے تھے
01:55انہیں ان کی زندگی کا ایک پل ایک گھڑی اور ایک ساتھ بھی اپنی خوشی اور اپنی مرضی سے جینے کی اجازت نہیں دیتے تھے
02:02جس سے محمد بقتیار خان محبت کا دعویٰ کرتے تھے ان کی آتی جاتی سانسیں بھی ان کی مرضی کے تابع ہوا کرتی تھی
02:09اگر دوسروں پر اپنے مند چاہے فیصلے مسلط کرنے کا نام محبت ہے
02:13تو وہ اس سے محبت کرتے تھے
02:15اگر بے تہاشا پیسہ اور دولت لٹانے کا نام محبت ہے تو وہ اس سے محبت کرتے تھے
02:20اور اگر دوسروں کی پوری زندگی خود چی لینے کا نام محبت ہے تو وہ اس سے محبت کرتے تھے
02:26وہ خاموش بیٹھی ہوئی تھی اور وہ اس کی پہم خاموشی محول کو بہت آکورٹ بنا رہی تھی
02:31وہ جانتی تھی وہ جب یہاں آ گئی ہے تو اب اسے کچھ بولنا بھی ہے
02:34ان گزرے چھ سالوں میں وہ ہر دو تین مہینے بعد جب بھی وہ اس سے ایک مقتصر سی کال کرتے
02:40تب وہ ان سے باعدب لہجے میں بر تکلف اور رسمی سی باتیں کیا کرتی تھی
02:45باتیں کیا کرتی تھی جو وہ پوچھتے تھے ان کا جواب دیا کرتی تھی
02:48جتنی شدید نویت کا جنگو جدل سے بھرپور محول ان دونوں گھرانوں کے بیچ
02:53بلکل اعلانیہ اور کھلم کھلا پچھلے چھ سات ماہ سے چل رہا تھا
02:58اس میں اس کی آمد کوئی عام سی یا روٹین کی بات نہ تھی
03:01وہ اس کی آمد کا سبب نہیں پوچھ رہے تھے
03:04اسے اس کی ممی نے یہاں کیوں کر آنے کی اجازت دے دی
03:07جیسے بنیادی اور اہم ترین سوال بھی نہیں کر رہے تھے
03:10وہ جیسے اسے دیکھ کر بہت کش ہو گئے تھے
03:12ان کے جملے یہ ظاہر کر رہے تھے جیسے وہ یہ سمجھ ہی نہیں رہے
03:15کہ وہ ان کی بیماری کا سن کر بھاگی بھاگی دوڑ کر ولی کے ساتھ آگئی ہے
03:19وہ بیمار ہیں یہ ان کا کمزور وجود بستر پر دیکھ کر ہی سمجھ میں آ گیا تھا
03:24لیکن یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی
03:26وہ چھے سال پہلے اسی گھر میں اس کمرے میں جب زندگی میں پہلی بار ان سے ملی تھی
03:30وہ تب بھی ایسے ہی بیمار تھے
03:32وہ تب بھی یوں ہی بستر پر لیٹھے ہوئے تھے
03:35اس نے ان کی طبیعت کی قرابی کا سرسری تذکرہ گزرے برسوں میں کئی بار سنا تھا
03:41ولی نے ٹیک لگوا کر بٹھانے کے بعد سامنے سوفے پر جا کر بیٹھ گیا
03:45وہ بلکل خاموش تھا
03:47اور اس کا چہرہ نگاہیں جو سفر کے دوران تمام وقت بلکل بے تاثر رہے تھے
03:51اب آگا جان کی سمت مرکوز اتنے بے تاثر نہیں لگ رہے تھے
03:55اسے یکثر فراموش کیے وہ ایک ٹک آگا جان کو دیکھے جا رہا تھا
03:59آپ کی طبیعت کیسی ہے
04:01اسے بولنے کے لیے یہی مناسب لگا
04:03کہ ان کی طبیعت پوچھ لے
04:04طبیعت ٹھیک ہے بیٹا
04:06اس عمر میں چھوٹی موٹی تکلیفیں تو چلتی ہی رہتی ہیں
04:08ہمارے سامنے کے بچے ترہاں ترہاں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں
04:11تو ہماری تو اب عمر ہے
04:13کبھی آنکھ دکھ رہی ہے
04:15تو کبھی دار ہل رہی ہے
04:16کبھی گھٹنے جواب دے جاتے ہیں
04:18تو کبھی دل گردے جگر شرارتوں پر آمادہ ہو جاتے ہیں
04:22بڑھاپا نام ہی بیماریوں کا ہے
04:23اس کے چہرے کو محبت سے تکتے ہو
04:26انہوں نے خوش دلی سے جواب دیا
04:27اس کی نظریں ان کے بیٹ
04:29سائٹ ٹیبل پر رکھی
04:30فریم شدہ تصویروں پر جم گئی تھی
04:32چہ سال قبل پہلی بار جب وہ اس کمرے میں آئی تھی
04:35تب یہ تصویر یہاں موجود نہیں تھی
04:37اس لیے کہ تصویر کھیچی ہی اسی دن گئی تھی
04:39خوف زدہ حرانسہ
04:41نظریں جھکا کر زبردستی کی دلہن
04:43بنا کر بٹھائی گئی
04:44وہ خود اس کے برابر میں جینز ٹی شٹ میں
04:47ملبوس زبردستی کا دلہ
04:48دلہ کے برابر دلہ کے کندے کی گرد
04:51محبت سے بازو پھیلائے
04:52اداسی بھرے مسکان چہرے پر سجائے
04:54اس کے ڈیڈی اور دلہن کے برابر میں
04:56کمزور بیمار لاغر سے آغا جان
04:58آغا جان کے برابر
05:00سنگل صوفے پر بہت نراض
05:02بہت قفا اور غصے کی میں
05:03اس کی ممی ڈیڈی کے برابر
05:05کس سنگل صوفے پر آنکھوں میں
05:07ڈھیر سارے آنسو لیے زرمینے
05:09اس تصویر کے ساتھ ایسی کوئی بھی خوشگوار
05:12جوڑی یاد نہیں تھی
05:13جسے یاد کر کر خوش ہو پائے
05:15وہاں چھے اور تصویریں بھی تھی
05:17وہ ایک دیوار پر آویزہ
05:19اور دو الگ الگ جگہ پر سجی ہوئی تھی
05:22آغا جان اس کی دادی
05:23اس کے ڈیڈی اور اس کے چچا
05:25سحیب خان کے ساتھ
05:26ان کی جوانی کے دنوں کی تصاویر
05:28آغا جان اور اس کی دادی
05:29بہت ینگ اور ڈیڈی اور سحیب
05:31بہت چھوٹے نظر آ رہے تھے
05:32ان کے ڈیڈی کے کانوویشن کے دن کی
05:35سیاہ روب اور ڈگری ہاتھ میں لیے
05:37کی تصویر
05:38اور سحیب خان کے کالج یا یونیورسٹی میں
05:40کوئی میڈل وصول کرتے وقت کی تصویر
05:42وہاں ولی اور زرمینے کے ان کے والدین کے ساتھ
05:44بچپن کی ایک تصویر بھی رکھی ہوئی تھی
05:46تصاویر سے نظرے ہٹا کر
05:49دوبارہ ان کی طرف متوجہ ہو گئی
05:51وہ اسے پیر اوپر کر کے
05:52آرام سے بیٹھنے کو کہہ رہے تھے
05:54وہ کمبل پیروں پر ڈال لے
05:56اسے سردی تو نہیں لگ رہی
06:05کسی جسمانی تھکن کا تو خیر اسے
06:09کیا شکار ہونا تھا
06:10ہاں آسابی نفسیاتی اور ذہنی طور پر
06:12وہ کافی تھکی ہوئی تھی اور دباؤ میں بھی تھی
06:15جس جگہ وہ آ گئی تھی
06:16وہاں آنا کوئی عام بات نہ تھی
06:18لاکھ وہ خود کو پر اعتماد اور بہادر
06:21ظاہر کر رہی تھی مگر اندر سے کچھ نروس تو تھی
06:23تم آ کر فریش بھی ہوئی ہو
06:25یا ولی تمہیں سیدھا میرے پاس ہی لے کر آیا ہے
06:27یہ زرمینے کہاں ہیں
06:28کھانے کا ٹائم ہو رہا ہے
06:30اس سے کہو صدو سے کھانا لگوائے
06:31وہ خاصے خوش اور پرجوش نظر آ رہے تھے
06:34یوں جیسے کوئی بہت قاصل خاص
06:36اور غیر معمولی اہمیت کا حامل
06:38مہمان ان کے گھر آ گیا تھا
06:40اور ان کا بس نہیں چل رہا تھا
06:41کہ کس کس طرح اس کی قاتل مدارت کرے
06:43کھانا لگواؤ بیٹا اور صدو سے پوچھو
06:45کچھ دھنکی چیز اس نے پکائی بھی ہے
06:47کہ نہیں میری بیٹی آئی ہے
06:48اس کے شایان شان نہایت شاندار ڈینر ہونا چاہیے
06:52ولی زرمینے کو بلا کر لے آیا تھا
06:54یہ تمام کلام اسی سے ہو رہا تھا
06:56آپ ڈرائن روم تک جانے میں تھک جائیں گے آغا جان
06:59میں کھانا یہیں لگوا دوں
07:00زرمینہ بیٹی اور شایان شان ڈینر
07:02دونوں کے ذکر کو مکمل نظر انداز کرتی
07:05صرف کھانا لگوانے کی بات کے جواب میں بولی
07:07فارا آغا جان کے بلکل برابر میں بیٹھی تھی
07:10مگر وہ یوں بات کر رہی تھی
07:11جیسے وہاں آغا جان کے علاوہ
07:13کوئی اسے نظر ہی نہیں آ رہا
07:15لگوالو لیکن پھر سب کا یہیں لگواؤ
07:17میں آج اپنے بچوں کے ساتھ کھانا کھانا چاہتا ہوں
07:19میرے تینوں پوتی پوتا میرے دائے بھائیں موجود ہوں
07:22ہم سب ساتھ بیٹھ کر کھائیں گے
07:24ایک پرفیکٹ فیملی ڈینر
07:25تھوڑی ہی دیر میں ان کے کمرے میں
07:27سوفے کے سامنے رکھی
07:28لکڑی کی ایک خوبصورت میز پر
07:29تمام کھانا چن دیا گیا تھا
07:31وہ بیٹھ سے
07:32ولی کی مدد کے سہارے اٹھے
07:34اور انہیں سوفے تک بھی کندے کے گرد
07:36ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ چلاتا وہ ہی لایا
07:38آج تو وہ سہارے سے چل رہے تھے
07:40اس نے جب انہیں پہلی بار دیکھا تھا
07:42تب وہ ویلچئر پر بٹھا کر
07:44ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے جاتے تھے
07:46بیٹھنے کے بعد انہوں نے فارا کو پکڑ کر
07:48اپنے برابر سوفے پر بٹھا لیا
07:49وہ دونوں شریر کہاں ہیں
07:51آگا جانا بھی زرمینے سے پوچھ ہی رہے تھے
07:53کہ ولی جو چند سیکنڈ قبل ہی باہر نکلا تھا
07:56واپس آ گیا
07:56اپنی گود میں دائیں بائیں وہ خوبصورت بچوں کو اٹھائے ہوئے
07:59انہیں گدگدا کر ہساتا اور کچھ بولتا ہوا
08:02زرمینے کے غصے بھرے
08:04پھولے چھیرے پر ایک دم مسکراہت اگری تھی
08:06زیادہ حیران ہونے
08:08یا سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہیں تھی
08:09یہ یقینا زرمینے کے ہی بچے تھے
08:11تقریبا پانچ برس قبل
08:13اس کی شادی کا بلاوا جو آگا جان نے فون پر دیا تھا
08:17اور ولی کے ہاتھ شادی کا کارڈ
08:19بمائے ائر ٹکٹ
08:21اسے بجوایا تھا
08:23اسے اچھی طرح یاد تھا
08:24زرمینے کی شادی ہے
08:25میں ولی کے ہاتھ کارڈ اور تمہارا اور روحی کا جہاز کا ٹکٹ بجوا رہا ہوں
08:28تم لوگ آوگے تو مجھے اور زرمینے کو بہت خوشی ہوگی
08:31شادی میں تو خیر ان لوگوں کا کیا آنا تھا
08:33لیکن وہ بلاوا اسے اچھی طرح یاد تھا
08:35اور طبقہ افسوس بھی
08:37ولی سے چار سال چھوٹی اور اپنی ہی کم عمر
08:39لڑکی چاہے اس کا کوئی بھی تعلق
08:41اس سے نہیں تھا لیکن اس کی شادی پر
08:43بہت افسوس ہوا تھا
08:44اتنی کم عمر لڑکی کی شادی
08:46پتہ نہیں ہے بیچاری کو پڑھنے لکھنے بھی دیا آگا جاننے کے نہیں
08:50تب غالباً فارا کے میڈیکل
08:51کے پہلے سال کا اقتتام چل رہا تھا
08:54اور اتنا تو تیہ تھا
08:55کہ اگر اسے بھولے بھٹکے
08:56اسکول کالج کی شکل دیکھنے آگا جاننے
08:59اجازت دی بھی تھی
09:00تب بھی وہ اس وقت تک گریجویشن تو نہیں
09:02کیا ہوگا اس نے
09:04اس خاندان میں عورتوں کو دبا کر
09:06اور محکوم منا کر رکھنے کی روایت تھی
09:08یہاں مردوں کو حاکمیت حاصل تھی
09:10فیصلے وہ کریں گے اور عورتے
09:12بیٹی بیوی بہن پوتی وغیرہ وغیرہ
09:14کے مختلف حیثیتوں میں سر جھکا کر
09:16بغیر اف کیے انہیں قبول کریں گی
09:19اس خاندان میں بچپن کی منگنیوں
09:21اور نکاح اور شادیوں کا بہت رواج تھا
09:23اس کے ڈیڈی کی بھی ایسی ہی بچپن میں
09:25منگنی کی گئی تھی
09:26جسے توڑنا بعد میں ان کا جرم بنا تھا
09:28درمینے کی شادی کی اطلاع دیتے ہوئے
09:30آگا جان نے یہ بھی بتایا تھا
09:32کہ اس کی منگنی کچھ سال قبل
09:33اس کے والدین کی زندگی میں ہی ہو چکی تھی
09:3618 سال کے 18 سال کی لڑکی
09:38اگر چند برس قبل بھی منگنی ہوئی ہوگی
09:41تو بھلا اس وقت اس کی کیا عمر ہو رہی ہوگی
09:43اور خود اس کا نکاح
09:4517-18 سال کی عمر
09:46منگنیوں نکاحوں اور شادیوں کے لیے
09:48کوئی مناسب عمر تو نہیں ہوتی
09:49ولی ان دونوں بچوں کو گود میں لیا
09:51آگا جان کے برابر صوفے پر بیٹھ گیا
09:53ان دونوں بچوں کی عمروں کا زیادہ درست
09:55اندازہ تو نہیں لگا سکتی تھی
09:57دیکھنے میں لڑکی زیادہ صحت مند اور بڑی نظر آ رہی تھی
10:00شیص ساڑھے تین چار سال کی تھی
10:02لڑکا نسبتاً کچھ کمزور
10:04دبلہ سا نظر آ رہا تھا اور وہ چھوٹا تھا
10:06ولی صوفے کے کونے پر بیٹھ گیا
10:09اس کے برابر آگا جان تھی
10:11اور ان کے برابر فارہ
10:12صوفے پر جو جگہ واحد بچی تھی
10:14وہ فارہ کے برابر تھی
10:15اور وہ لڑکی اس کے اتنا بغض تو رکھتی تھی
10:18کہ اس کے برابر میں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی
10:20وہ بیٹھ مڑ کر بیٹھ کے پاس
10:22رکھی کرسی اٹھا کر لیائی
10:24اور اس کرسی کو میس کے سامنے رکھ کر
10:25اس پر بیٹھ گئی
10:26اس کا دل چاہا وہ اسے بتا دے
10:28کہ زیادہ فکر مت کرو
10:29میں کسی طویل طعام و قیام کے لیے
10:31یہاں ہرگز نہیں آئی
10:32جیسے تم مجھ سے بیزار ہو
10:33ایسی میں بھی تم لوگوں سے بہت بیزار ہوں
10:35ویسے نفرد و عداوت اپنی جگہ
10:37اس لڑکی نے خود کو بچوں کے بعد بھی
10:39کافی مینٹین کر کے رکھا ہوا تھا
10:41وہ اتنی دبلی پتلی اور نازک سی تھی
10:43جیسے فارہ
10:44نیلے رنگ کی کڑھائی والے شلوار قمیس کے ساتھ
10:47سر پر ڈپٹا لیے
10:48وہ اتنی ہی فریش
10:49ینگ اور سمارٹ لگ رہی تھی
10:50جتنی کوئی غیر شادی شدہ لڑکی
10:52اگر اس میں موجود قاندانی غرور و تکبر
10:56کو ہٹا دیا جاتا
10:57تو وہ کافی خوبصورت لڑکی تھی
10:58پتہ نہیں وہ یہاں مستقل رہتی تھی
11:01یا صرف ملنے آئی ہوئی تھی
11:02اس نے لمحہ بڑھ سے زیادہ
11:03اس بات کے بارے میں مزید نہیں سوچا
11:06ماں کو فارہ کے برابر بیٹھنا نہ تھا
11:08مگر بیٹی کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہ تھا
11:10وہ مامو کی گوز سے اتر کر
11:11سوفے کے اس کالی جگہ پر آ کر بیٹھ گئی
11:14پلاو میں سے بوٹیاں ہٹوا کر
11:15اس نے ماں سے صرف چاول اپنی پلیٹ میں ڈلوائے
11:17اور اب ان چاولوں کو بڑے سلیخے
11:19اور مزے سے کھا رہی تھی
11:20جبکہ اس کے بھائی صاحب کے موں میں
11:22زبردستی نوالے ٹھوسے جا رہے تھے
11:24والے خود کھانا کھاتے
11:25بھارجے کے موں میں بھی نوالے زبردستی ڈال رہا تھا
11:28لالا یہ آپ کو کھانے نہیں دے گا
11:30لائے مجھے اسے دے دے
11:31نہیں ٹھیک ہے
11:32اس نے نفی میں سر ہلا کر بھارجے کے ساتھ
11:35باتیں شروع کر دیں
11:36تم نے اس کی عادتیں خراب کی ہوئی ہیں زرمینے
11:38بچہ اپنے ہاتھ سے خوشی اور اغبت سے کھائے
11:40تو صحت بھی اچھی ہوتی ہے
11:41تب ہی دیکھ لو یہ کتنا کمزور ہو رہا ہے
11:44آغا جان کے سامنے ان کا پھریزی کھانا موجود تھا
11:47وہ اپنی پلیٹ میں ڈال رہے تھے
11:48میں کیا کروں آغا جان
11:49یہ کچھ کھاتا ہی نہیں ہے
11:51نوالے لے کر پورے گھر میں اس کے پیچھے بھاگوں
11:54تب کہیں جا کر اس کے پیٹ میں چند لقمیں جاتے ہیں
11:57دودھ، انڈے، فروٹ سے وہ بے نیاز ہے
12:00اللہ اللہ کر کے جنگ فورڈ میں پھر بھی کبھی کبار دلچسپی لے لیتا ہے
12:03مگر صحت بخش
12:04چیز تو حلق سے اترتی ہی نہیں ہے
12:06یہ واقعی ایک پرفیکٹ فیملی ڈینر ہو سکتا تھا
12:09اگر اس میں وہ موجود نہ ہوتی
12:11وہ یہاں آوٹسائیڈر لگ رہی تھی
12:12اسے مسلسل یہ احساس ہو رہا تھا
12:14کہ کسی بے تکلف سے گھریلو ڈینر میں
12:16وہ زبردستی شامل ہو گئی ہے
12:18دادا، پوتا، پوتی، پوتی کے بچے
12:21وہ یہاں کیا کر رہی تھی
12:22تم کچھ لے کیوں نہیں رہی
12:24کیا کھانا اچھا نہیں لگ رہا
12:26تم رات کے کھانے میں کیا لیتی ہو
12:28بتا دو زرمینے وہ بنوا کر لے آئے گی
12:30اس نے اپنی پلیٹ میں تھوڑے سے چاور ڈالے تھے
12:32اور انہیں چمچ سے یہاں وہاں گھما رہی تھی
12:34میں لے رہی ہوں آگا جان
12:36کھانا بہت مزے کا ہے
12:37اس نے اپنی پلیٹ میں تھوڑا سا سالن اور سلات بھی
12:40جلدی سے شامل کر لیا
12:41دو مہینے قبل
12:43آپ جن لوگوں سے صاف صاف اور بالکل واضح
12:46ان کے مو پر یہ کہہ چکے ہوں
12:47کہ آپ ان سے شدید نفرت کرتے ہیں
12:49ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعلق نہیں رکھنا چاہتے
12:52پھر انہی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا
12:54بے تکلف سے گھریلو قسم کے محول میں
12:56اسے یہ بہت عجیب سا اور آکورڈ لگ رہا تھا
12:59دو مہینے قبل اس نے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں
13:01ممی تجمل ماما اور مویز کے موجودگی میں
13:04آگا جان اور ولی کے مو پر صاف صاف کہا تھا
13:06مجھے طلاق چاہیے
13:07میں ولی صحیب خان کے ساتھ
13:09کسی بھی قیمت پر نہیں رہنا چاہتی
13:11آگا جان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
13:13بلکل بے قوف و قطر ہو کر
13:15اس نے پوتے اور ان کے جوڑے
13:16زبردستی کے رشتے دونوں کو ایک ساتھ
13:19بڑی شدت سے رت کیا تھا
13:21اپنا فیصلہ ان کو سنایا تھا
13:23یہ کھلی سچائی اور واضح حقیقت تھی
13:25کہ وہ ولی صحیب خان سے اتنی ہی نفرت کرتی تھی
13:27جتنی اس کی ممی اور آگا جان کے جوڑے
13:30اس زبردستی کے رشتے سے
13:31اتنی بیزاری تھی جتنی اس کی ممی کو
13:34اور مویس کا ساتھ
13:35اگر کسی بھی سبب سے نہ مل پایا
13:37اور اگر دنیا میں آخری مرد
13:39ولی صحیب خان بچہ ہوتا
13:41تو وہ ہمیشہ کواری رہنا اور تنہا زندگی گزارنے کو
13:43اپنے لئے منتقب کرتی
13:45اس روز وہ ان کے گھر آنے
13:47کہ غالباً تین یا چار دن بعد
13:49آگا جان کے فون کال آئی تھی
13:51میری صحیح ٹھیک نہیں ہے
13:52میری زندگی کا کچھ پتہ نہیں ہے
13:54فارہ سے ایک بات میری بات کروا دو
13:57اس کے صاف صاف جواب دے دینے کے باوجود
13:59نجانے وہ اس سے کیا بات کرنا چاہتے تھے
14:01کال ممی نے ریسیف کی تھی
14:03اور انہوں نے ان کی فارہ سے بات کروانے سے
14:05صاف انکار کر دیا تھا
14:06فارہ آپ سے بات نہیں کرے گی
14:07اسے جو کہنا تھا وہ آپ سے بلکل صاف کہہ چکی ہے
14:10اب برائے مہروانی یا فون کرنے کی زہمت نہ کریں
14:13وہ وہاں موجود تھی
14:15تجمل مامو اور زہرہ مامی بھی وہاں بیٹھے تھے
14:17اس کی طرف سے کلا کا قانونی مطالبہ پہنچ جانے کے بعد
14:20اس کے مو سے ورہے راست اس رشتے سے انکار سن لینے کے بعد
14:24نجانے وہ اس سے مزید کیا کہنا چاہتے تھے
14:26ممی نے ان کی بات پوری سنے بغیر کال کارڈ دی تھی
14:29ہاں یہ ضرور ہوا تھا کہ پھر آغا جان کے ہاں سے
14:32کسی بھی طریقے کا رابطہ لاہور
14:33ان کے گھر نہیں کیا گیا تھا
14:35دو مہینے پہلے انکار ولی کا
14:37اس کے گھر آنا اور پھر تین روز بعد
14:39ان کی فون کال
14:40اس کے بعد پھر یہاں سے ہر طرح کی مکمل
14:43خاموشی چھائی رہی تھی
14:44مگر یہ خاموشی ایسی ہی تھی جیسے
14:47طوفان سے قبل کی خاموشی ہوتی تھی
14:49پچھلے چھ سات مہینے
14:51اگر اس نے سخت عذیت و مشکل میں گزارے تھے
14:53اور آج وہ یہاں موجود تھی
14:55جن لوگوں سے وہ نفرت کرتی ہے انہی کے بیچ
14:57واقعی انسان اپنے بارے میں
14:59اپنی زندگی تک کے بارے میں
15:00کبھی کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا
15:02کوئی پیش کوئی نہیں کر سکتا
15:04کیا آج صبح اس نے سوچا بھی تھا
15:06کہ آج رات کا کھانا وہ کہاں اور کس کے ساتھ کھا رہی ہوگی
15:09آغا جان نے بہت تھوڑا سا کھانا کھایا تھا
15:11اور وہ زیادہ دیر
15:12سوفے پر بھی نہیں بیٹھ سکتے تھے
15:14ولی نے سہارا دیکھ کر دوبارہ بیٹھ پر لے گیا تھا
15:17اسے تو کچھ کھانے کی رقبت ہی نہیں تھی
15:19لیکن ولی اور زرمینے نے بھی بہت تھوڑا سا کھانا کھا کر
15:21جلدی جلدی کھانا ختم کر دیا تھا
15:23آغا جان نے فارا کو دوبارہ اپنے پاس بٹھا لیا تھا
15:26ابھی ہو نہ میرے پاس
15:27ابھی جاؤ گی تو نہیں
15:28ولی کی طرف اس کی پشت تھی
15:30اور ولی کے طرف دیکھے بغیر اس نے سر ہلا دیا تھا
15:34لیکن تمہاری ہاؤس چوب
15:35تمہاری کام کا ہرچ تو نہیں ہوگا بیٹا
15:37انہوں نے متفکر سے لہجے میں اگلا سوال کیا
15:40اس نے نفی میں سر ہلا دیا
15:42آغا جان آج کے لیے اتنی باتیں کافی ہیں
15:44آپ کو زیادہ بولنا نہیں ہے
15:45پتہ ہے نہ آپ کو
15:46زرمینے اٹھ کر ان کے پاس آگئی
15:49اور تم بھی ہی لہجے میں اس طرح
15:50بولی جیسے انہیں نہیں اسے سنا رہی ہو
15:53اب یہاں سے دفع ہو جو
15:54یہ میرے آغا جان کے سونے اور آرام کرنے کا ٹائم ہے
15:56بعض باتیں کہیں نہیں جاتی
15:58رویوں سے سمجھا دی جاتی ہیں
16:00وہ یہاں سے اٹھ کر کہاں جائے
16:02اس نے ایک پل کو سوچا
16:03فارا بھی تھک گئی ہوگی
16:04اسے اس کا کمرہ دکھاؤ
16:05اپنے پورشن میں اکیلے شاید اسے ڈر لگے
16:08ایسا کرو بحروس کا کمرہ صاف کروا کر
16:10فارا کے لیے ٹھیک کروا دو
16:11انہوں نے نام لے کر کسی کو مقاتب نہیں کیا
16:13مگر کہہ یقیناً زرمینے سے رہے تھے
16:16اس نے جدہ ان کی کوئی بات سنی ہی نہیں تھی
16:18وہ سائٹ ٹیبل کے پاس کھڑی ان کی دوائیں نکال رہی تھی
16:21وہ ان کی بات سن لینے کے بعد بھی
16:23اگلا کام کرنے کے بجائے
16:25انہیں دوائی دل جمعی سے نکال کر دے رہی تھی
16:27دوائیں نکالنے کے بعد وہ گلاس میں پانی رالنے لگی
16:30میں فارا کے لیے کمرہ ٹھیک کروا کر آتا ہوں آگا جان
16:32ولی جو کھانے کے بعد سے سوفے پر ہی بیٹھا تھا
16:35ایک نظر زرمینے کو دیکھتا
16:36سوفے پر سے کھڑا ہو گیا
16:37وہ اگلے سیکنڈ کمرے سے باہر تھا
16:40دس پنرہ منٹ بعد وہ اندر آیا
16:41تو برہائی راس اسی سے مقاتب ہوا
16:43آج آو فارا
16:44اس کا لہجہ تکلفات کا حامل ہونے کے باوجود
16:47اخلاق لے ہوئے تھا
16:48بلکل ایسا جیسے آپ کسی مہمان کے ساتھ اختیار کرتے ہیں
16:51یہ اخلاق بھی شاید اس ایگریمنٹ کا حصہ تھا
16:54جاؤ بیٹا آرام سے جا کر سو جو
16:56اب انشاءاللہ صبح بات ہوگی
16:57اس وقت یہ ہٹلر کی نانی
16:59مجھے زیادہ بولنے نہیں دے ری
17:00کل صبح ہم دادا پوتی خوب دھیر ساری باتیں کریں گے
17:03بستر پر لیٹے انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی
17:05تو وہ خود آگے بڑھ کر ان کے قریب چھک گئی
17:07لیٹے لیٹے انہوں نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما
17:10اور اس کے ماتھے کو بڑی محبت سے چوما
17:12میری بیٹی میرے پاس آگئی ہے
17:14آج رات مجھے بڑی سکون کی نیند آئے گی
17:16وہ خامشی سے اس کے پاس سے ہٹ گئی
17:18زرمینے دوالے نے ان کے قریب کھڑی تھی
17:22جبکہ ولی دروازے کے پاس کھڑا
17:23اس کا انتظار کر رہا تھا
17:24وہ اس کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آئی
17:26الجے ہوئے سے انداز میں وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی
17:29اس نے ولی کے ساتھ زینہ تیہ کیا
17:31اور ایک کمرے کے سامنے آ کر رک گئی
17:33کسی چیز کی ضرورت ہو تو انٹر کوم پر گل خان سے کہہ دینا
17:36ایک منٹ ولی
17:37اس کے پکارنے پر وہ تاجب کے انداز میں مڑا
17:40آگا جان سمجھ رہے ہیں
17:41میں ان کی بیماری کا سن کر تمہارے ساتھ آئی ہوں
17:43اور انہیں سمجھنے بھی یہی دہنا ہے
17:45تمہیں ان کے سامنے یہی ظاہر کرنا ہے
17:47کہ تم صرف ان کی بیماری کا سن کر
17:49سب کچھ بھلا کر یہاں آ گئی ہو
17:50اور تین مہینے بعد
17:51میں ابھی انہیں یقین دلا دوں اور تین مہینے بعد
17:55کیا کہوں گی ان سے
17:56وہ جھوٹ بولنے اور محبت کے ڈرامے کرنے
17:59یہاں نہیں آئی تھی
18:00کہ ان کی بیماریوں کے آڑ لے کر
18:02اسے کسی طرح کے جذباتی بلیک میلنگ کا شکار
18:05بنایا جانے والا تھا
18:06یہ تمہارا دردسر نہیں
18:07تمہارا کام تین مہینے یہاں آگا جان کے پاس رہنا ہے
18:10تین مہینے بعد کیا کرنا ہے
18:11اور کیا کرنا نہیں ہے
18:13یہ میرا کام ہے
18:14تمہارے پاس میرا یہ دیا ہوا ثبوت ہے
18:16پھر بھی تمہاری تسلی کے لیے
18:17آج پہلی اور آخری بار
18:18تمہیں یقین دہانی کروا رہا ہوں
18:20کہ تین مہینے سے اگلا ایک دن بھی
18:22تمہیں نہ یہاں رہنا پڑے گا
18:23اور نہ کسی ناپسندیدہ رشتے کو جوڑے رکھنا پڑے گا
18:28میں اپنے الفاظ سے پھڑنے والا انسان نہیں ہوں
18:30وہ اس کے بالکل قریب آ کر
18:32سرگوشی نماؤاز میں ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا
18:35وہ پور اخلاق اور مہمان نوازی والا انداز
18:38جو آغا جان کے سامنے اختیار کیا گیا تھا
18:40اب ندارت تھا
18:42اب انداز باروب اور حکمیہ ہونے کے ساتھ
18:45مکمل کاروباری اور پروفیشنل نویت کا تھا
18:48اب اس موضوع پر تم مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہو گی
18:51جو بات میرے اور تمہارے بیچ ہے
18:53وہ اب کسی بھی انداز میں دھڑائی نہ جائے
18:56یہ تمہیں میری پہلی اور آخری مورننگ ہے
18:58بہت سخت اور بے لچک لہجے میں
19:00وہ آواز دبا کر اس انداز میں بولا
19:03گویا اسے یہ کچھا تھا کہ کہیں اس کی آواز
19:05کسی اور تک نہ پہنچا
19:06وہ فوراں ہی واپس مڑ گیا
19:08وہ اس کی بات مان کر یہاں آئی کیوں ہے
19:10اس کے اندر اگدم سے پشتاوا ہو بھڑنے لگا
19:12فیصلہ کرنے کے لمحے میں ہمیشہ اپنے دل کی آواز سنو
19:15پہلی بار اس بات پر عمل کیا
19:17اور پہلی ہی بار مو کے بل گر پڑی تھی
19:20وہ بے شک کسی بھی قیمت پر
19:22اس ناپسندیدہ ترین اور زندگی پر
19:24عذاب کی طرح مسلط رشتے سے
19:26جان چھڑوا لینا چاہتی تھی
19:27مگر محبت کے جھوٹے رومے کر کے
19:29ہرگز نہیں
19:30یہ اس کے میار سے کم تر درجے کی بات تھی
19:33یہ بڑی گھٹیا اور نیچ سی بات تھی
19:35وہ اتنی جرہ ترکتی تھی کہ جن سے نفرت کرتی ہو
19:37علل اعلان ان سے اظہار نفرت کر سکے
19:40اور جن سے محبت ہو
19:41تو علل اعلان محبت کا اعلان کر سکے
19:45تمہیں تین مہینے آغا جان کے ساتھ
19:46ایک بہت محبت والی پوتی بن کر رہنا ہے
19:49اسے ولی کے الفاظ یاد آئے
19:51تب اس نے ان الفاظ پر زیادہ سوچ
19:53بچار نہیں کیا تھا
19:54یہ سب یوں ہی ایک دکھاوہ اور جھوٹ ہے
19:56دراصل تو آغا جان
19:58بیس سارے منصوبے سے واقف ہیں
20:00ہاں اس کے سامنے ضرور لائلمی کا دھونگ رچا رہے ہیں
20:02وہ بہت بری طرح
20:05الجی ہوئی کمرے میں آگئی
20:06برسو پہلے اس کی پیدائش سے بھی پہلے
20:08کبھی یہ اس کے ڈیڈی کا کمرہ تھا
20:10یہاں وہی فرنیچر وہی سب سامان رکھا ہوا تھا
20:13جو برسو پہلے اس کے ڈیڈی کے زیر استعمال رہا تھا
20:16یہیں اسی کمرے میں
20:17ممی اور ڈیڈی کے پیچ جھگڑا ہوا تھا
20:19وہ اس جھگڑے کی اینی شاہد تھی
20:21خوف سے تھر تھر کافتی
20:22اس جھگڑے کے دوران وہ بھی تو یہی موجود تھی
20:25یہی کچھ چھ سوہ چھ سال کی شام تھی
20:28یہاں اس بیٹ کے قریب ممی کھڑی تھی
20:31کیا فارا کا نکاح
20:32بہروز آپ ہوش میں تو ہیں
20:34وہ ان سے ایک دو خدم دور
20:35کھڑی ڈیڈی سے بولی
20:37ہاں ابھی ہوش میں آیا ہوں
20:38پوری زندگی باپ کی نافرمانی کر لی
20:41اسے بہت دکھ پہنچا دیئے
20:43بھائی سے ناجائز قربانیاں مانگ لی
20:46اب کوئی ایک کام تو ایسا ہو جو ان کے خوشی اور رضا حاصل کر پاؤں
20:49اور وہ خود اس بیٹ پر بیٹھی ان دونوں کو حراسہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی
20:54ممی ڈیڈی پر چلا رہی تھی
20:56نراز ہو رہی تھی
20:57اور وہ چلا تو نہیں رہے تھے
20:58مگر وہ ممی پر قفا بہت ہو رہے تھے
21:00بہت بھرام لہجے میں ناگواری اور غصے سے بول رہے تھے
21:03ممی اگر غصے سے چلا رہی تھی
21:05تو وہ بلکل قطعی اور دو ٹوک انداز میں اپنا حکم سنا رہے تھے
21:08میں اپنی بیٹی کے ساتھ یہ زبردستی کبھی نہیں ہونے دوں گی
21:11کیوں دوں میں اپنی بیٹی کا ہاتھ اس خاندان کے کسی شخص کے ہاتھ میں
21:15جس نے آج تک کبھی مجھے بہت تسلیم ہی نہیں کیا
21:17اگر فارا تمہاری بیٹی ہے تو میری بھی بیٹی ہے
21:20میں اپنی بیٹی کا دشمن نہیں
21:22بہت سوچ سمجھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے
21:24ان دونوں کا جھگڑا سمٹنے کے بجائے بڑھتا جا رہا تھا
21:27ابتدائی بحث و تقرار شدید غصے اور نراز کی میں تبدیل ہو چکی تھی
21:31بہروز میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گی
21:33ممی روتے ہوئے بہت زور سے چلائیں تھی
21:35بس ڈیڈی کے ہاتھ اٹھا کر تنبی کرنے والے انداز میں
21:38انہیں مزید کچھ کہنے سے روک دیا تھا
21:40مجھے بحث نہیں چاہیے
21:42جو ویصلہ میں کر چکا ہوں
21:43میں نے اس سے تمہیں آگاہ کرنا تھا
21:45سو کر دیا
21:46میں نے تم سے تمہاری رائے نہیں مانگی
21:48میں فارا کا باپ اپنی بیٹی کا نکا
21:50اپنے بھائی سوہیب کان کے بیٹے
21:52ولی سوہیب کان کے ساتھ آج شام
21:54اب سے ایک گھنٹے بات کر رہا ہوں
21:55اور یہ میرا اٹل اور آخری فیصلہ ہے
21:57سختی اور حاکمیانہ لہجہ
22:00ان کے ڈیڈی کا تو ہرگز نہیں تھا
22:02ہاں شاید یہ آگا جان کا لہجہ تھا
22:04صرف پندرہ دنوں میں وہ آگا جان کی زبان
22:07اور ان کا انداز سیکھ گئے تھے
22:09اس حکمی اور سخت لہجے میں بولتے
22:10اس نے ڈیڈی کو کبھی بھی نہیں سنا تھا
22:12وہ تو خیر سترہ اٹھارہ سال کی ناسمجھ
22:14اور ناتجربہ کار لڑکی
22:16یا شاید بچی سمجھی جاتی تھی
22:17اس سے کچھ کہنے سننے یا پوچھنے کا
22:20تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا
22:21مگر یہاں تو اس کی ماغ کو بھی
22:23کسی رائے یا مشورے کے بغیر
22:24ایک سیدھا سادھا حکم سنا دیا گیا تھا
22:27سخت اور قرطہ ہی لہجے میں
22:29ممی روتے ہوئے کمرے سے چلی گئی تھی
22:30وہ ممی اور ڈیڈی کے بیچ
22:32تناو بدکمانی اور جھگڑے کی فضا دیکھ کر
22:34بری طرح سیمی ہوئی بیٹھی رو رہی تھی
22:37ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے
22:39وہ میاں بیوی آپس میں یوں جھگڑ رہے تھے
22:41کاش کسی طرح وہ سب کچھ پہلے کی طرح ہو جائے
22:44اس کے ماں باپ کو لڑوانے والے
22:46محمد بقتیار خان اس سے اسے نفرت ہو رہی تھی
22:48اسے اس دن کا وہ ایک ایک پل یاد تھا
22:52اس ایک دن نے اس کی زندگی کو
22:54کس قدر آزمائشوں میں مبتلا کر دیا تھا
22:56اس ایک دن نے اس کی زندگی کو
22:58پورا کا پورا بدل کر رکھ دیا تھا
23:00اس کی آنکھیں آنسوں سے بھیگنے لگیں
23:02یہاں اس کمرے میں وہ تنہا تھی وہ رو سکتی تھی
23:04وہ رو رہی تھی
23:05ڈیڈی کی زمانہ دال بیلمی کی ایک تصویر کو اٹھا کر
23:08اس نے ہاتھ پھیڑتے سے
23:10اپنے سینے سے لگا لیا تھا
23:11اور بیٹ پر آ کر لیٹ گئی
23:13تمام بتیاں بچھا کر
23:14جب زندگی اندھیروں اور آندھیوں کی زد میں تھی
23:17تو کمرے میں نمائشی روشنی کس کام کی تھی
23:19اپنے ماں باپ کی محبت بھری چھاؤں میں
23:22خوش باش اور بے فکر زندگی گزارتی
23:25درد غم کے معینوں سے
23:27نعاش ناکم سن نو عمر فارا
23:28بحروس خان کی زندگی
23:30اس روز تک خوشگوار اور بہترین تھی
23:32جب تک اس میں محمد بقتیار خان
23:34محمد سحیب خان اور محمد ولی
23:36سحیب خان نام کے لوگ داقل نہ ہوئے تھے
23:38اس کی اٹھاروی سالگرہ میں
23:40چار مہینے باقی تھے
23:41وہ اے لیول کے امتحانات سے فارح ہوئی تھی
23:44کہ زندگی میں سب کچھ بدل گیا
23:46اس کے ممی ڈیڈی کی پسند کی شادی تھی
23:48جسے اس کے گھر والوں نے قبول نہ کیا تھا
23:51اور اس کے ڈیڈی نے باپ کے گھر کے
23:52امیر تھارڈ بارٹ سے مو موڑ کر
23:54اپنی دنیا بسا لی تھی
23:55یوں لگتا تھا جیسے ان کے سامنے
23:58ان کی فیملی کا نام بھی لینا سنگین جرم تھا
24:01مگر پھر ایک روز ان سب
24:02لوگوں کا ان کے گھر میں ذکر ہوا
24:05اور وہ فارح وحروسان کی زندگی کا
24:07کشگوار آخری دن تھا
24:09ڈیڈی کے چھوٹے بھائی سحیب خان کا انتقال ہو گیا تھا
24:12برسوں کے قطع تعلقے کے بعد
24:13آغا جان نے انہیں بھائی کے موت کی تلعہ بچوائی تھی
24:16وہ بھائی کے آخری دیدار اور ان کی تتفین میں
24:18شرکت کے لئے پشاور چلے گئے تھے
24:20وہاں پندرہ روز خیام کے دوران
24:22انہوں نے صرف ایک بار لہور اپنے گھر بیوی اور بیٹی کو فون کیا
24:25وہ بھی صرف یہ بتانے کے لئے
24:27کہ وہ ابھی پشاور ہی میں کچھ اور روز رہیں گے
24:29کیونکہ ان کے والد بہت بیمار ہیں
24:30فارح اور ممی یہاں ان کے لئے پریشان ہوتی رہی
24:33اور وہ وہاں رہتے رہے
24:34پھر پندرہ روز انہوں نے فون کر کے
24:37فارح اور ممی دونوں کو اپنے پاس پشاور آنے کو کہا
24:40انہیں ائرپورٹ پر لینے والا دراز قدامت
24:44مضبوط جسامت والا 21-22 سال کا لڑکا تھا
24:48جس کی نیلی آنکھیں بلکل اس کے ڈیڈی جیسی تھی
24:51وہ لڑکا چند گھنٹوں بعد اس کی زندگی پر
24:53کس عذاب کی طرح مسلط ہونے والا تھا
24:55وہ جانتی نہ تھی
24:56اگر جانتی ہوتی تو شاید ائرپورٹ سے آغا جان کے گھر جانے کے بجائے
25:00واپس لاہور کی فلائٹ پکڑتی
25:02ممی اور آغا جان کے آلی شان محل نمہ گھر پہنچی
25:06جہاں بستر پر دراز پڑے آغا جان سے ان دونوں کی زندگی میں پہلی بار ملاقات ہوئی
25:10آ گئے میرے بچے
25:12وہ انہیں دیکھتے ہی فوراں بولے
25:14فارا اپنے دادا کے پاس نہیں آوگی
25:16روحی بیٹا
25:16تم وہاں کیوں رک گئی یہاں آؤں
25:18کیا ابھی تک مجھ سے نراز ہو
25:20دیکھو تو سحیب کیسے چھوڑ کر چلا گیا
25:22وہ لیٹے لیٹے ہی ہاتھ کے اشارے سے انہیں اپنے پاس بلاتے ہوئے بولے
25:25فارا انہیں نہیں دیکھ رہی تھی
25:27وہ اپنے ڈیڈی کو دیکھ رہی تھی
25:28شاید ممی بھی انہیں کو دیکھ رہی تھی
25:30پندرہ دن کی دوری کے بعد وہ بیٹی یا بیوی کی طرف نہیں
25:34بلکہ اپنے باپ ہی کی طرف متوجہ تھے
25:36ان کے پیٹ دباتے ہوئے
25:37اور ممی کو یک سر نظر انداز کرتے ہوئے
25:41وہ اسے بہت بدلے ہوئے بہت اجنبی لگ رہے تھے
25:52وہ اسے اور ممی کو یہاں کیوں بلوایا گیا ہے
25:54وہ اس کا نکاح اپنے بھروم بھائی کے بیٹے کے ساتھ فوراں کر دینا چاہتے تھے
25:58جس بھائی سے وہ برسو نہیں ملے تھے
26:00اس کے بیٹے کو پندرہ دن پہلے سے ہی جانا تھا
26:04وہ اس کے ساتھ آنن فانن بغیر کسی سے پوچھے
26:06سلاہ مشورہ کیے
26:07اپنی بیٹی کی زندگی وابستہ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے
26:11ممی اور ڈیڈی کے بیش شدید چھگڑے کے بعد
26:14جب ممی کمرے سے روتی ہوئی چلی گئیں
26:15تب ڈیڈی بیٹ پر اس کے پاس آ کر بیٹ گئے
26:17اس وقت انہوں نے ممی سے
26:19جس لہجے میں کہا کہ وہ بیٹی کے دشمن نہیں
26:22وہ سوچ کر ہی
26:23انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے
26:25وہ انہیں دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی
26:27کہ کیا واقعی اس کے ڈیڈی اس کے دشمن کبھی نہیں ہو سکتے
26:30وہ کبھی اس کے لیے کچھ برا نہیں سوچ تک تھے
26:33لیکن پھر وہ آج کیوں اس کے لیے برا سوچ رہے ہیں
26:35پر وہ اس کے ڈیڈی کہاں رہے تھے
26:37وہ تو ایک اجنبی لگ رہے تھے
26:39وہ اتنے بدلے ہوئے اتنے مختلف لگ رہے تھے
26:41اسے لگ رہا تھا جیسے وہ ڈیڈی کے
26:43اس ہم شکل سے پہلی بار مل رہی ہو
26:46اس کے ڈیڈی تو اتنے نرم
26:47مزاج صلح جور محبت کرنے والے انسان تھے
26:51سختی تلقی غصہ حکم چلانا
26:53یہ سب تو ان کی فطرت میں تھا ہی نہیں
26:55اس نے انہیں کبھی حکم چلاتے نہیں سنا
26:58ان کے گھر میں آج کیا
26:59پکناہ سے لے کر گھر کے فرنیچر
27:01اور دیگر سامان کے پریداری
27:02چھٹیاں کہاں گزاریں گے
27:04فارا کی بردے کیسے سیلیبریٹ کریں گے
27:06فارا کو ایت کی شاپنگ کہاں کرائیں گے
27:08جیسے معاملات تک بھی
27:09ممی اور ڈیڈی کی بہامی مشاورت سے
27:11تیپ آیا کرتے تھے
27:13اور وہ اس روز اپنی اکلوتی بیٹی کی زندگی کا
27:15سب سے اہم اور سب سے بڑا فیصلہ
27:17وہ اپنی بیٹی بیوی کی ماں کی مرزی کے قلاف
27:20جبرن مسلط کر رہے تھے
27:22یہ اس کے ڈیڈی نہیں تھے
27:24یہ اس کے ڈیڈی ہو ہی نہیں سکتے تھے
27:26فارا تمہیں کیا لگتا ہے
27:27تمہارے ڈیڈی تمہارے ساتھ کیا کبھی کچھ برا کر سکتے ہیں
27:29اس کے برابر بیٹھ کر
27:31بے ڈیڈی اس کے سر
27:33اپنے سینے سے لگاتے ہوئے آہستگی سے پوچھا
27:35انہوں نے اس سے پوچھا
27:36ممی سے بات کرتے ہوئے جو سختی
27:39تلقی ان کی آنکھوں اور زبان میں تھی
27:41اس سے بات کرتے ہوئے
27:43اس کی جگہ نرمی اور محبت نے لے لی تھی
27:45فارا مائی سویٹ ہارٹ
27:46تمہارے ڈیڈی نے زندگی میں بہت غلطیاں کی ہیں
27:49اب ان کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں
27:51کیا تم اپنے ڈیڈی کا ساتھ نہیں دوگی
27:53ان کی بات نہیں مانوگی وہ رو رہے تھے
27:55اس نے بے اختیار سر اٹھا کر انہیں دیکھا
27:57وہ واقعی ڈیڈی نہیں لگ رہے تھے
27:59جنہیں وہ جانتی تھی مضبوض
28:01آساب کے مالک بڑی سے بڑی بات
28:03کی ٹینچن میں آنے والے
28:05وہ رو رہے تھے وہ آج کیوں
28:07اس طرح رو رہے تھے اگر ان کا
28:08چھوٹا بھائی مر گیا تو اس کی موت
28:11کا یہی وقت مقرر ہوگا بھائی کی موت
28:13میں اس کا کیا خصور جسے وہ اپنی
28:15غلطی گردان رہے تھے برسوں
28:17بعد اس گھر میں آئے ہیں تو اتنے برسوں
28:19سے ان پر اس گھر کے دروازے
28:21اس مالک نے خود بن کیے تھے
28:22ان کے باپ نے انہیں گھر بدر کی
28:24سزا سنائی تھی اپنا گھر تو
28:26نہیں چھوڑ کر گئے تھے جسے اپنی غلطی
28:28خرار کر رہے ہیں تو کیا ممی کی
28:30پسند کی شادی آگا جان کی حکم
28:32خلافی انہیں اپنا گناہ نظر آنے لگی
28:35ہے بھائی کی موت آگا جان کی
28:37بیماری برسوں بعد اس گھر
28:39میں آئے ہیں تو اتنے برسوں
28:40سے اس پر ان پر اس گھر
28:42کے دروازے اس گھر کے مالک
28:44نے بن کر رکھے تھے ان کے باپ
28:46نے انہیں گھر بدر کی سزا سنائی
28:48تھی اپنا گھر وہ تو نہیں چھوڑ کر
28:50گئے تھے جسے اپنی غلطی
28:52خرار دے رہے تھے تو کیا
28:54ممی سے شادی آگا جان کی
28:56حکم عدووی انہیں اپنا گناہ
28:58نظر آ رہی تھی بھائی کی موت
29:00آگا جان کی بیماری برسوں بعد اپنے
29:02گھر میں واپسی پر اگر انہیں ممی سے
29:04شادی اپنی غلطی نظر آنے لگی تھی
29:06تو یہ ان کی وہ سوچ تھی
29:08وہ احساس جرم و ندامت تھا جو
29:16وہ بھی صورت میں جب
29:18جابر شہنشاہ
29:21کا مزاج رکھنے والا باب
29:22آپ سے یہ چاہتا ہے کہ آپ اس کی
29:24تیہ کردہ کسی بچپن کی منگنی کو
29:26قبول کریں نہ کہ اپنی زندگی
29:28کا ساتھیں خود چننے کی جسارت کر بیٹھیں
29:30اور اگر یہ جسارت کر بیٹھیں تو
29:32آپ کو آپ ہی کے گھر سے نکل جانے
29:34کا حکم سنا دیا جائے گا
29:36اپنی جائدات سے آپ کو آخ کر کے
29:38سب کچھ چھوٹے بھائی کے نام کر دیا جائے گا
29:40وہ اپنی زد پوری
29:42کرنے کے لیے اپنی انہ کو سر بلند
29:44رکھنے کے لیے چھوٹے بیٹے کی اپنی
29:46اس بھانجی سے فوراں شادی کروا دی جائے گی
29:48جس سے منگنی توڑنے کا گناہ آپ سے
29:50سرزرد ہوا تھا یہ میرے
29:52مرنے والے بھائی کی خوہش تیفارہ
29:54کہ تم اس کی بہو بنو اور ہمارا
29:56ٹوٹا رشتہ اس مضبوط رشتے کی
29:58بدولت پھر سے جوٹ جائے ہمیشہ
30:00ہمیشہ کے لیے مضبوط ہو جائے وہ روتے ہوئے
30:02اس کا سر سینے سے لگائے
30:04اس سے مقاطب تھے ایک مرے ہوئے انسان
30:06کے لیے وہ اپنی جیتی جاگتی
30:07کم عمر بیٹی کی زندگی بھیٹ چڑھانے
30:10کو تیار تھے کسی مرے ہوئے انسان
30:12کی خوہش پر ایک زندہ انسان کی قربانی
30:14دی جا رہی تھی اسے رونا آ رہا تھا
30:16آغا جان جو بیٹے کی موت اور اپنی
30:18بیماری کو ہتیار کی طرح اس کی
30:20ممی کے خلاف استعمال کر رہے تھے
30:22ایک کل کی لڑکی جو برسوں پہلے
30:32اور ممی دونوں کے ساتھ بہت اچھے بنے ہوئے تھے
30:34مگر کیا انہیں یہ نظر نہیں آ رہا تھا
30:36کہ یہ جبرن جو رشتہ وہ ڈیڈی کے ذریعے
30:38مسلط کروا رہے ہیں
30:39ممی اس پر کچھ نہیں ہے فارہ اس پر کچھ نہیں ہے
30:42ممی اور ڈیڈی کے جھگڑے کے ایک گھنٹے
30:44بعد اسے ایک سرک جوڑا
30:46اور کئی طرح کے بھاری برکم زیورات پہنا کر
30:49جو آغا جان نے اپنے سیف سے نکال کر
30:51دیئے تھے اور جو سارے ان کے
30:52قاندانی اور بہت قیمتی زیورات تھے
30:54اسے زبردستی دلہن بنا کر
30:56ولی سحیب کان کے برابر بٹھا دیا گیا تھا
30:58مقتصر سے مہمان تھے
31:00صرف خاص خاص اور قریبی رشتہ دار
31:02کوئی دھوم دھام کوئی ہنگامہ
31:04نہیں تھا کیونکہ پندرہ دن قبل اس گھر میں
31:06ایک موت ہو چکی تھی فیصلہ ہو چکا تھا
31:08فیصلہ سنایا جا چکا تھا اس کا کام
31:10تو صرف اپس گردن ہلانے کا تھا
31:13اور سامنے رکھے کاغذار پر
31:14دستخط کرنے کا تھا
31:16خود پر اترے جبر کے اس لمحے کے لئے
31:18وہ ڈیڈی اور آغا جان کو کبھی معاف نہیں کر سکے گی
31:20کاپتے ہاتھوں سے نکہ نامے پر
31:22دستخط کرتے اس نے سوچا تھا
31:23آغا جان مجھے اجازت دے میں لہور میں
31:25اپنے سارے ادھورے بکھرے کام سمیٹ لوں
31:27ملازمت سے استفعہ دے دوں
31:29روحی اپنا اور فارا کا سامان پیک کر لے
31:32بس پھر ہم واپس یہیں آ جائیں گے
31:33اور اب ہم ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گے آغا جان
31:35آپ سے وعدہ کرتا ہوں
31:37اب زندگی بھر آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا
31:39آپ کے قدموں میں سارے زندگی گزار دوں گا
31:42تیسرے دن دب ڈیڈی نے لہور واپسی کی بات کی
31:44تب آغا جان آنکھوں میں آنسو لیے تھے
31:47ڈیڈی نے فوراں انہیں واپسی کی وجہ سے آگا کر کے
31:51ہمیشہ کے لئے یہاں آ جانے کا یقین دلایا تھا
31:53جب کہ آغا جان اس کی اور ممی کے ساتھ
31:56اچھا بننے کا ڈراما کرتے رہے تھے
31:58روحی بیٹا سارے گلے گلے اور رنجشے
32:00اور پشلی ہر بات بھلا کر یہاں آ جاؤ میرے پاس
32:03تم میرے لئے میری بہو نہیں میری بیٹی ہو
32:05وہ لوگ ہمیشہ کے لئے پشاور واپس جانے کے لئے
32:08لاہور ائرپورٹ آئے تھے
32:09تین دن پہلے کے شدید جھگڑے کے بعد
32:12سے ممی اور ڈیڈی میں بات چیت بلکل بند تھی
32:14جس طرح ان تین دنوں میں
32:17ممی اور ڈیڈی میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی
32:19اسی طرح راستے میں بھی کوئی بات نہیں ہوئی
32:21اور واپس لاہور آ کر شدید و غص
32:23غم و غصے میں گھری
32:24ممی اپنے گھر میں قدم
32:27رکھنے کے بجائے برابر میں
32:28اپنے بھائی کے گھر چلی گئی
32:30ڈیڈی کو جس طرح ان کی نرازگی اور غصے کی کوئی پرواں نہ آتے
32:33اسی طرح انہیں ان کے نراز ہو کر
32:35بھائی کے گھر چلے جانے سے بھی
32:37کچھ فرق نہ پڑا تھا
32:38ممی کی نرازگی سے لا تعلق
32:39اور بے نیاز فارا کو ساتھ لیے
32:41اپنے گھر میں آ گئے تھے
32:42ہاں وہ کچھ بجے بجے اور کاموش سے ضرور تھے
32:45وہاں پشاور میں آغا جان اور اپنے بھتیجی بھتیجوں کے ساتھ
32:48بہت زیادہ باتیں کرنے والے ڈیڈی
32:49یہاں آتے ہی بلکل چپ چاپ سے ہو گئے تھے
32:52وہ اسی اداسی برے انداز میں
32:54لاؤنچ میں فارا کے ساتھ
32:55بیٹھے اس سے کچھ باتیں کرتے رہے تھے
32:57پشاور میں بھی اچھے تعلیم داروں میں
32:59کوئی کمی نہیں ہے
33:00وہ فارا کو میڈیکل کی تعلیم وہاں سے دلوائیں گے
33:03وہ وہاں پڑھنے میں بھی اتنا ہی انجوائے کرے گی
33:05جتنا یہاں کرتی ہے
33:06نئی سہیلیاں بنانے میں کچھ وقت ضرور لگے گا
33:09مگر بہت جلد وہ وہاں خود کو ایڈجسٹ کر لے گی
33:12جیسی چند تھوڑی بہت باتیں
33:14وہ اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے تھے
33:16فارا بیٹا اپنا سامان پیک کر لو
33:18وہ اس سے یہ جملہ کہتے ہیں
33:20اپنے کمرے میں چلے گئے تھے
33:21وہ اپنے کمرے میں تھے
33:22بہت پریشان لاؤنچ میں بیٹھی رہی
33:24ممی اور ڈیڈی کے جھگڑے میں
33:26وہ کس کا ساتھ دے
33:27ممی نراز ہو کر تجمع المامور کے گھر چلی گئی
33:29وہ پشاور آگا جان کے گھر مستقل رہائش
33:32پذیر کسی قیمت پر نہیں ہوں گی
33:34یہ بالکل واضح تھا
33:36اور ڈیڈی اب وہاں جانے کے علاوہ
33:37کہیں اور رہائش اپتیار نہیں کریں گے
33:39وہ ان دونوں میں سے کس کا ساتھ دے
33:41کس کی بات مانے گی
33:42کس کی حکم عدوی کرے گی
33:45ما یا باپ میں سے کسی ایک کا انتقاب
33:47یہ کس طرح ممکن تھا
33:49یہ کس طرح ہو سکتا تھا
33:50وہ بہت الچن اور بہت بیچینی کے عالم میں
33:52گم سمسی بیٹھی تھی
33:53اس دوران دوپہ شام شام رات
33:56اور رات اگلی صبح میں بدل گئی
33:59نہ ممی تجمع المامور کے گھر سے واپس آئیں
34:01نہ ڈیڈی اپنے کمرے سے باہر نکلے
34:03اب کیا ہونے والا تھا
34:04زندگی اب جانے کیا روک دکھانے والی تھی
34:07مگر یہ تو واضح نظر آ رہا تھا
34:09کہ زندگی اب دوبارہ کبھی پہلے جیسی
34:11نہ ہو پائے گی
34:12اور واقعی زندگی پھر دوبارہ
34:13کبھی پہلے جیسی ہو بھی نہ پائی تھی
34:16صبح جب کافی دیر ہو گئے
34:18اور ڈیڈی اپنے کمرے سے باہر نہ نکلے
34:19تب وہ ان کے کمرے کے دروازے پر آئی
34:21دستک کا کوئی جواب نہ تھا
34:23وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی
34:25تو وہاں ڈیڈی کا صرف جسم تھا
34:27ان کی روح ایک دوسری دنیا کی طرف پرواز کر چکی تھی
34:30ان کی رائٹنگ ٹیبل پر ان کے ہاتھوں کا ٹائپ شدہ
34:32وہ استفعہ رکھا تھا
34:34جس پر ان کے دستقت تھے
34:35اسی دن کی تاریخ تھی
34:37جس کی صبح وہ اس دنیا میں موجود ہی نہ تھے
34:39اگر زندہ رہتے تو آج انہیں یہ استفعہ
34:41اپنے آفیس جا کر دینا تھا
34:42اس استفعہ کے ساتھ کمرے میں
34:44الماریوں میں سے بھی تمام سامان
34:46نکال کر سوٹ کیسو اور بیکس میں بھر کر رکھا ہوا تھا
34:49کچھ وہ سامان بھی تھا
34:51جسے پیک کرنے کی شاید انہیں مولت نہ مل پائی
34:53وہ سب کارپٹ
34:54سوفو اور بیٹ پر بکھرا پڑا تھا
34:56یہ ساری پیکنگ یہی ظاہر کر رہی تھی
34:59کہ وہ دپہر سے رات تک یہی کام کرتے رہے تھے
35:01اپنے آغا جان کے پاس جانے کی تیاری کرتے رہے تھے
35:04ڈاکٹر کا کہنا تھا
35:05کہ رات کے آخری
35:06کسی پہر ان کا انتقال ہوا تھا
35:08نہ جانے کس کس ناکردہ گناہ کا بوجھ
35:11اپنے دل میں لیے
35:12وہ یوں خاموشی سے رخصت ہو گئے تھے
35:14کل دوپہر لاؤنج میں
35:16اس کے پاس سے اٹھنے والے ڈیڈی
35:18اب کبھی دوبارہ اس کے پاس نہیں آئیں گے
35:21اس سے بات نہیں کریں گے
35:22وہ صدمے سے بدحواس ہو گئی تھی
35:23وہ پاگلوں کی طرح دیواروں سے چلے ٹکراتی
35:26دہارے مار مار کر رو رہی تھی
35:27ڈیڈی سے اپنے اس جبری نکا
35:30اور ممی سے جھگڑا کرنے پر
35:31وہ دلی دل میں نراز تھی
35:32اور وہ اسے منائے بغیر ہی چلے گئے تھے
35:35اب وہ کس سے نراز ہو
35:36کس سے شکوا کرے
35:37ڈیڈی سے شدید نراز
35:39اور بدگمان بھائی کے گھر چلے جانے والی ممی
35:41سر پر بیوگی کی چادر لیے
35:43صدمے سے بدحال
35:44اپنے گھر واپس آ گئی تھی
35:45ان کی ہستی مسکراتی زندگی میں آگ لگا دی
35:48ان سے ان کا سوہاک چھینج لینے والے
35:52ان کی بیٹی کو یتیمی کا دکھ دینے والے
35:54محمد مختیار
35:55کان کو وہ کبھی معاف نہیں کریں گی
35:58وہ روتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی
36:00لائک کومنٹس شیئر کریں
36:02اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کے لیے سبسکرائب کریں