ایک وقت تھا کہ جب ہزارہ میں کوئی شادی ہوتی تھی تو دولہے میاں شرم کی وجہ سے کئی کئی روز تک اپنے والدین اور گھر والوں کے سامنے نہیں آتے تھے۔اس زمانے میں سفید چاولوں کے ساتھ دیسی گھی اور بڑی بڑی بوٹیوں کے ساتھ دعوت ولیمہ میں مہمانوں کی تواضع کی جاتی تھی۔ وقت گزرتاگیا۔ او ر رسم و رواج بھی بدلتے گئے۔ اور اب ایبٹ آباد کی شادیوں میں لڑکیوں کو نچوانا یعنی مجرے کرنا ایک روایت بنتی جارہی ہے۔ ہماری موجودہ نوجوان نسل میوزک، لڑکی، شراب اور پیسے کے پیچھے دیوانی ہوچکی ہے۔ مسجدیں ویران جبکہ کنجرخانے آباد ہیں۔لوگوں کو موت سے نفرت اور دنیا سے محبت اتنی زیادہ ہے کہ زیادہ ترلوگوں کویہغلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ ساری دنیا مرجائے گی۔ لیکن ہم کو موت نہیں آسکتی۔ کلمے اور دوقومی نظریئے کی بنیاد پر قائم ہونے والے اس ملک میں اپنے قیام کے 67سال بعد کیا صورتحال ہے۔ اس ویڈیو میں ملاحظہ فرمائیں۔
Category
🎵
Music