پاکستان میں دہشت گردی سے متاثرہ صوبے خیبر پختونخوا میں تقریباﹰ ساٹھ سنیما گھروں میں سے اب صرف سات باقی رہ گئے ہیں۔ پشتو فلموں کی کوالٹی بھی ایسی نہیں رہی کہ فلم بین انہیں دیکھ کر لطف اندوز ہوسکیں۔ عام آدمی کے لیے فلم تفریح کا آسان اور معیاری ذریعہ مانا جاتا ہے لیکن پشتو فلموں کی کوالٹی ایسی نہیں کہ لوگ فلم دیکھنے سے لطف اندوز ہوں۔ پشتو فلموں کے زیادہ تر پوسٹر اسی ڈیزائن کے ہوتے ہیں، جیسے کہ کلاشنکوف، شراب، رقص کرتی خواتین۔ فلموں کے نام بھی کچھ اس نوعیت کے ہوتے ہیں: 'لوفری اسی کو کہتے ہیں'، 'بدمعاشی ماننا ہوگی'، ’بدمعاشی نہیں ماننا‘ یا پھر ’بد عملی اسی کا نام‘۔ پشاور میں پشتو فلموں کی صنعت سے وابستہ افراد کے بارے میں دیکھیے مدثر شاہ کی رپورٹ۔
Category
🗞
News