Surah bani israeel ] Surat No. 17 Ayat NO. 0
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل نام : آیت 4 کے فقرے وَقَضَیْنَآ اِلیٰ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ فِی اْلکِتٰبِ سے ماخوذ ہے ۔ مگر اس میں موضوع بحث بنی اسرائیل نہیں ہیں ، بلکہ یہ نام بھی اکثر قرآنی سورتوں کی طرح صرف علامت کے طور پر رکھا گیا ہے ۔ زمانہ نزول : پہلی ہی آیت اس بات کی نشان دہی کر دیتی ہے کہ یہ سورت معراج کے موقع پر نازل ہوئی ہے ۔ معراج کا واقعہ حدیث اور سیرت کی اکثر روایات کے مطابق ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا ، اس لیے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں سے ہے جو مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں ۔ پس منظر : اس وقت نبی ﷺ کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے 12 سال گزر چکے تھے ۔ آپ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کر چکے تھے ۔ مگر ان کی تمام مزاحمتوں کے باوجود آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی ۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کی دعوت سے متاثر نہ ہو چکے ہوں ۔ خود مکے میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا جو ہر خطرے کو اس دعوت حق کی کامیابی کے لیے انگیز کرنے کو تیار تھے ۔ مدینے میں اوس اور خزرج کے طاقتور قبیلوں کی بڑی تعداد آپ کی حامی بن چکی تھی ۔ اب وہ وقت قریب آ لگا تھا جب آپ کو مکے سے مدینے کی طرف منتقل ہو جانے اور منتشر مسلمانوں کو سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کر دینے کا موقع ملنے والا تھا ۔ ان حالات میں معراج پیش آئی ، اور واپسی پر یہ پیغام نبی ﷺ نے دنیا کو سنایا ۔ موضوع اور مضمون : اس سورت میں تنبیہ ، تفہیم اور تعلیم ، تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کر دی گئی ہیں ۔ تنبیہ ، کفار مکہ کو کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو اور خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر ، جس کے ختم ہونے کا زمانہ قریب آ لگا ہے ، سنبھل جاؤ ، اور اس دعوت کو قبول کر لو جسے محمد ﷺ اور قرآن کے ذریعے سے پیش کیا جا رہا ہے ، ورنہ مٹا دیے جاؤ گے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ زمین پر بسائے جائیں گے ۔ نیز ضمنا بنی اسرائیل کو بھی ، جو ہجرت کے بعد عنقریب زبان وحی کے مخاطب ہونے والے تھے ، یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ پہلے جو سزائیں تمہیں مل چکی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور اب جو موقع تمہیں محمد ﷺ کی بعثت سے مل رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھاؤ ، یہ آخری موقع بھی اگر تم نے کھو دیا اور پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو دردناک انجام سے دوچار ہو گے ۔ تفہیم کے پہلو میں بڑے دلنشین طریقے سے سمجھایا گیا ہے کہ انسانی سعادت و شقاوت اور فلاح و خسران کا مدار دراصل کن چزوں پر ہے ۔ توحید ، معاد ، نبوت اور قرآن کے برحق ہونے کی دلیلیں دی گئی ہیں ۔ ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو ان بنیادی حقیقتوں کے بارے میں کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے ۔ اور استدلال کے ساتھ بیچ ب
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل نام : آیت 4 کے فقرے وَقَضَیْنَآ اِلیٰ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ فِی اْلکِتٰبِ سے ماخوذ ہے ۔ مگر اس میں موضوع بحث بنی اسرائیل نہیں ہیں ، بلکہ یہ نام بھی اکثر قرآنی سورتوں کی طرح صرف علامت کے طور پر رکھا گیا ہے ۔ زمانہ نزول : پہلی ہی آیت اس بات کی نشان دہی کر دیتی ہے کہ یہ سورت معراج کے موقع پر نازل ہوئی ہے ۔ معراج کا واقعہ حدیث اور سیرت کی اکثر روایات کے مطابق ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا ، اس لیے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں سے ہے جو مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں ۔ پس منظر : اس وقت نبی ﷺ کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے 12 سال گزر چکے تھے ۔ آپ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کر چکے تھے ۔ مگر ان کی تمام مزاحمتوں کے باوجود آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی ۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کی دعوت سے متاثر نہ ہو چکے ہوں ۔ خود مکے میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا جو ہر خطرے کو اس دعوت حق کی کامیابی کے لیے انگیز کرنے کو تیار تھے ۔ مدینے میں اوس اور خزرج کے طاقتور قبیلوں کی بڑی تعداد آپ کی حامی بن چکی تھی ۔ اب وہ وقت قریب آ لگا تھا جب آپ کو مکے سے مدینے کی طرف منتقل ہو جانے اور منتشر مسلمانوں کو سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کر دینے کا موقع ملنے والا تھا ۔ ان حالات میں معراج پیش آئی ، اور واپسی پر یہ پیغام نبی ﷺ نے دنیا کو سنایا ۔ موضوع اور مضمون : اس سورت میں تنبیہ ، تفہیم اور تعلیم ، تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کر دی گئی ہیں ۔ تنبیہ ، کفار مکہ کو کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو اور خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر ، جس کے ختم ہونے کا زمانہ قریب آ لگا ہے ، سنبھل جاؤ ، اور اس دعوت کو قبول کر لو جسے محمد ﷺ اور قرآن کے ذریعے سے پیش کیا جا رہا ہے ، ورنہ مٹا دیے جاؤ گے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ زمین پر بسائے جائیں گے ۔ نیز ضمنا بنی اسرائیل کو بھی ، جو ہجرت کے بعد عنقریب زبان وحی کے مخاطب ہونے والے تھے ، یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ پہلے جو سزائیں تمہیں مل چکی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور اب جو موقع تمہیں محمد ﷺ کی بعثت سے مل رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھاؤ ، یہ آخری موقع بھی اگر تم نے کھو دیا اور پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو دردناک انجام سے دوچار ہو گے ۔ تفہیم کے پہلو میں بڑے دلنشین طریقے سے سمجھایا گیا ہے کہ انسانی سعادت و شقاوت اور فلاح و خسران کا مدار دراصل کن چزوں پر ہے ۔ توحید ، معاد ، نبوت اور قرآن کے برحق ہونے کی دلیلیں دی گئی ہیں ۔ ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو ان بنیادی حقیقتوں کے بارے میں کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے ۔ اور استدلال کے ساتھ بیچ ب
Category
📚
Learning