Skip to playerSkip to main contentSkip to footer
  • 2 days ago
surah al anfitar ]Surat No. 82 Ayat NO. 0
سورة الْاِنْفِطَار نام : پہلی ہی آیت کے لفظ اِنفَطَرَت سے ماخوذ ہے ۔ انفطار مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں ۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں آسمان کے پھٹ جانے کا ذکر آیا ہے ۔ زمانۂ نزول : اس کا اور سورۂ تکویر کا مضمون ایک دوسرے سے نہایت مشابہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سورتیں قریب قریب ایک ہی زمانے میں نازل ہوئی ہیں ۔ موضوع اور مضمون : اس کا موضوع آخرت ہے ۔ مسند احمد ، ترمذی ، ابن المنذر ، طبرانی ، حاکم اور ابن مردویہ کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بیان کیا : من سرہ ان ینظر الی یوم القیٰمۃ کانہ رأی عین فلیقرأ اذا الشمس کورت ، واذا السماء انفطرت ، واذا السماء انشقت ۔’’ جو شخص چاہتا ہے کہ روز قیامت کو اس طرح دیکھ لے جیسے آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے تو وہ سورۂ تکویر اور سورۂ انفطار ، اور سورۂ انشقاق کو پڑھ لے ۔“ اس میں سب سے پہلے روز قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آ جائے گا تو ہر شخص کے سامنے اس کا کیا دھرا سب آ جائے گا ۔ اس کے بعد انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ جس رب نے تجھ کو وجود بخشا اور جس کے فضل و کرم کی وجہ سے آج تو سب مخلوقات سے بہتر جسم اور اعضاء لیے پھرتا ہے ، اس کے بارے میں یہ دھوکا تجھے کہاں سے لگ گیا کہ وہ صرف کرم ہی کرنے والا ہے ، انصاف کرنے والا نہیں ہے ؟ اس کے کرم کے معنی یہ تو نہیں ہیں کہ تو اس کے انصاف سے بے خوف ہو جائے ۔ پھر انسان کو خبردار کیا گیا ہے کہ تو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہ ، تیرا پورا نامۂ اعمال تیار کیا جا رہا ہے ۔ اور نہایت معتبر کاتب ہر وقت تیری تمام حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہے ہیں ۔ آخر میں پورے زور کے ساتھ کہا گیا ہے کہ یقیناً روز جزا برپا ہونے والا ہے جس میں نیک لوگوں کو جنت کا عیش اور بد لوگوں کو جہنم کا عذاب نصیب ہو گا ۔ اس روز کوئی کسی کے کام نہ آ سکے گا ، فیصلے کے اختیارات بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہوں گے ۔

Category

📚
Learning

Recommended