Sniper series episode 57 a story full of thrill and suspense operation in waziristan most deadly operation in waziristan
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
Category
😹
FunTranscript
00:00ایک صبح ہم علام خیل جانے کے لیے تیار تھے
00:25ایک روز پہلے ہی رات کے وقت پلوشہ برقہ اوڑ کر اپنے مامو کے گھر سے ہو آئی تھی
00:30اور مامو کے گھر جانے کی وجہ اس کا دودھ شریک بھائی مراد تھا
00:34وہ چند دن کے لیے گھر آیا ہوا تھا
00:36اسے مسجد میں دیکھتے ہی امام مسجد مولانا عبدالقدوس نے پلوشہ تک یہ بات پہنچانے میں دیر نہیں کی تھی
00:42پلوشہ نے وہاں آنے کے اگلے ہی دن مولانا صاحب کوش یہ درخواست کی تھی
00:46اس کے مامو کا گھر بھی اسی محلے میں تھا اور وہ اسی مسجد میں نماز پڑھتے تھے
00:50مراد سے اسے کافی باتیں معلوم ہوئی تھی
00:52دو دن بعد اس کی انگور اڈے والی حویلی میں ایک بڑا پروگرام تھا
00:56میں حویلی کے ساز و سامان اور دروازوں کو ہی جلا سکا تھا
00:59یقیناً امارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا
01:02اور وہاں پر جشن بناتے وقت اس کے زیادہ تر لشکریوں نے وہیں اکٹھے ہونا تھا
01:06اس صورت میں علام خیل کی حویلی میں اس کے آدمیوں کی کوئی خاص تعداد موجود نہ ہوتی
01:11علام خیل میں اس کی دو حویلیاں تھی
01:12ایک میں اس کے خاندان والے رہائش پذیر تھے
01:15اور دوسری اس سے ملحق بیٹھک تھی
01:17جو رہائش کی حویلی سے بھی کافی بڑی تھی
01:19یہ وہی حویلی تھی جو اس سے پہلے قبیل خان کا مسکن تھی
01:22قبیل خان اور جانداد سگے بھائی تھے
01:25جبکہ سنوبر ان کا سوتیلا بھائی تھا
01:27اور وہ شروع دن ہی سے ایک ہی حویلی میں سکونت پذیر تھے
01:30پلوشہ مجھے یہ بتا چکی تھی
01:32کہ سنوبر خان نے اس پر تشدد کرتے وقت اس کی کمیز پھاڑی تھی
01:35اور اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی ماں کے ساتھ بدتمیزی کی تھی
01:38اس لیے سنوبر خان کو سبق سکھانے کے لیے ضروری تھا
01:41کہ اسے بھی ویسی ہی عذیت سے دوچار کیا جاتا
01:43گو میں نے کبھی عورتوں کو مردوں کی دشمنی میں گھزیٹنے کا نہیں سوچا
01:47نہ وزیرستان میں ایسا کوئی رواج تھا
01:49مگر سنوبر خان نے پلوشہ کی ماں اور کمسن بھائی کو درمیان ملا کر
01:52اس گھٹیا رسم کو شروع کیا تھا
01:54تو اسے اتنا احساس دلانا ضروری تھا کہ گھر والا وہ بھی ہے
01:57انگور اڈے سے علام خیل تک ہمیں ویگن مل گئی تھی
02:00پلوشہ برکے میں روپوش تھی جبکہ میں نے پگڑی باندھ کر
02:03اس کا پلو چہرے سے لپیٹا ہوا تھا
02:05علام خیل میں ہمارے علاوہ دو مرد اور بھی اترے تھے
02:08ویگن ہمیں اتار کر آگے بڑھ گئی
02:10جبکہ میں پلوشہ کے ساتھ دھیرے قدموں گاؤں میں داخل ہوا
02:13ہمارے ساتھ اترنے والے دونوں مرد ہم سے پہلے ایک جانے بڑھ گئے تھے
02:17کمانڈر عبد الرشید کی بیٹھک تک ہم بغیر بات چیت کیے پہنچے
02:20دوپہر کا وقت تھا بیٹھک کا دروازہ کھلا تھا
02:23دروازے پر موجود آدمی مجھے نہیں پہچانتا تھا
02:26اپنا تعرف کرائے بغیر میں نے کہا
02:27کمانڈر عبد الرشید سے ملنا ہے
02:29اس نے برکے میں روپوش پلوشہ پر حیرت بھری نظر ڈالتے ہوئے کہا
02:32وہ کہیں گئے ہوئے ہیں
02:33میں نے کہا کمانڈر عبدالحق مل جائیں گے
02:35کمانڈر عبدالحق وہی مرد مجاہد تھا
02:37جس کی وجہ سے میرے لئے مجاہدین کے ٹھکانوں کے دروازے کھلے تھے
02:41اس نے انکار میں سر ہلایا وہ بھی نہیں ہیں
02:53اس نے اس بات میں سر ہلایا جی ہاں
02:59میں نے کہا ٹھیک ہے انہیں بتا دیں
03:00کہ انگو رڈے سے کمانڈر نصرلہ خان کے خصوصی مہمان آئے ہیں
03:04وہ بولا آپ اندر تشریف لے جائیں
03:06وہ حجرے میں تشریف فرما ہیں
03:07اتنی زیادہ کمانڈر سے واقفیت نے اسے حساس دلا دیا تھا
03:10کہ میں کوئی غیر نہیں
03:11اور میں شکریہ کہتے ہوئے پلوشہ کے ساتھ حجرے کی طرف بڑھ گیا
03:14اسے شاید اندازہ تھا کہ میں پہلے بھی وہاں آ چکا ہوں
03:17اس لئے حجرے کی جگہ کے بارے میں میری رہنمائی کی کوشش نہیں کی تھی
03:21یہ بھی ممکن تھا کہ یہ کام اس نے اندر موجود آدمیوں کے لیے رہنے دیا ہو
03:25بیٹھک کے اندر کافی جوان دائیں بائیں پھر رہے تھے
03:28اور خالص مردانہ ماحول میں ایک برقہ پوش خاتون کی آمد ان کے لیے حیرانی کا باعث تھی
03:33لیکن اس حیرانی کا اظہار کرنے کے لیے انہوں نے پلوشہ کو کھورنے سے پرہیس کیا
03:37حجرے میں قاری غلام محمد صاحب چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے
03:42چونکہ میں انہیں شکل و صورت سے نہیں جانتا تھا
03:44اس لئے میں نے اندر داخل ہوتے ہی السلام علیکم کہا اور ان کے متعلق پوچھا
03:48تکیہ سے ٹیک لگا ایک گھنی داری والے ایک صحت مند آدمی نے خوش اخلاقی سے کہا جی
03:53اور پھر برقہ پوش پلوشہ پر نظر پڑتے ہی اس نے ہاتھ کے اشارے سے وہاں بیٹھے ہوئے دوسرے آدمیوں کو جانے کا کہا
03:59تمام خاموشی سے اٹھ کر حجرے سے باہر نکل گئے
04:01قاری غلام محمد نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا تشریف رکھیں
04:05اور میں پلوشہ کے ساتھ زمین پر بچھی چٹائیوں پر بیٹھ گیا
04:08ہمارے بیٹھتے ہی اس نے نرم لہجے میں پوچھا کیا خدمت کر سکتا ہوں
04:11میں نے کہا ہم نصراللہ خان خوج الخیل کے جاننے والے ہیں کسی کام سے آئے ہیں دو تین دن یہاں گزاریں گے
04:17قاری غلام محمد ہچکچاتے ہوئے بولا مگر کوئی خاتون جہاں نہیں رہ سکتی
04:21پلوشہ نے اپنا برکہ سامنے سے اٹھاتے ہوئے معصومانہ لہجے میں کہا ایسی بھی کیا بے رخی ہے استاج جی
04:26قاری غلام محمد کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھی
04:28اوہ پلو خان تمہارے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ تم پلوشہ خان وزیر ہو
04:33مطلب وہ حقیقت تھی
04:34پلوشہ نے اس بات میں سر ہلایا جی استاج جی
04:36وہ بولے اس کا مطلب ہے آپ ایس ایس ہیں
04:47اگر آپ لوگ برا نہ منائیں تو ایک بات کہوں
04:49اس کی نصیحت کرنے سے پہلے پلوشہ نے کہا یہ میرے شوہر ہے استاج جی
04:53وہ اتمنان بھرا سانس لیتے ہوئے بولا ماشاءاللہ مبارک ہو
04:56شادی کب کی
04:57پلوشہ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ڈیڑھ ماں سے زیادہ ہو گیا ہے
05:00چچا نصر اللہ نے خود نکاح پڑھوایا تھا
05:03وہ بولے بہت خوشی ہوئی اور یہ آپ کا اپنا گھر ہے بیٹی
05:06یہاں رکنے کے لیے کم از کم میری اجازت کی ضرورت آپ کو نہیں
05:09پلوشہ عقیدت سے بولی آپ تمام اسادزہ کی اجازت
05:12مجھے زندگی کے ہر مرحلے پر درکار ہوگی استاج جی
05:15میں نے یہ شادی بھی چچا نصر اللہ خان کے کہنے پر کی ہیں
05:18وہ بولے خوش رہو بیٹی
05:19خاری غلام محمد نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا
05:22یقیناً کھانا آپ اپنے کمرے میں کھانا پسند کریں گے
05:25پلوشہ نے اس بات میں سر ہلایا جی استاج جی
05:36سل خانہ موجود تھا وہ کمرہ یقیناً پلوشہ کی وجہ سے
05:39ہمارے حوالے ہوا تھا ورنہ اس سے پہلے میں اور سردار جہاں رہ
05:42چکے تھے اس وقت بھی ہمارے حوالے انہوں نے الہدہ کمرہ کیا تھا
05:45لیکن اس کمرے میں یہ سہولت موجود نہیں تھی گو پلوشہ لڑکا
05:49نمہ لڑکی تھی اور ابھی تک اس کے سر کے بال اتنے نہیں بڑے تھے
05:52جن میں پونی ڈالی جا سکے یا جھوڑا باندھا جا سکے اسی طرح
05:55نہ تو اس کی ستوہ ناک میں عورتوں کی طرح سراخ ہوا تھا
05:58اور نہ کانوں میں اب بھی مردانہ لباس پہن کر وہ لڑکے کا کردار آسانی سے ادا کر سکتی تھی
06:04لیکن مجھے اس کا بے پردہ پھرنا بالکل پسند نہیں تھا
06:07میرا پکا ارادہ تھا کہ سنوبر خان کو انجام تک پہنچاتے ہی
06:10اسے کسی بہانے تلگنگ جا کر چھوڑاؤں گا
06:13اسے اپنے ارادے سے متعلق کرنا گویا نیا محاذ کھولنے کی مترادف تھا
06:17اس لیے یہ ارادہ میرے دل میں نہا رہا
06:19شادی کے بعد سے وہ کھانا مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی
06:22کھانا کھا کر ہم آرام کے لیے لیٹ گئے
06:24زہر کی نماز میں نے باقیوں کے ساتھ ادا کی تھی
06:27البتہ پلوشہ کمرے سے باہر نہ نکلی
06:29مسجد میں مجھے کچھ اور جاننے والے بھی مل گئے تھے
06:32جن سے پہلی مرتبہ یہاں رہتے ہوئے ملاقات ہوئی تھی
06:34کچھ دیر ان سے گپ شپ کر کے میں پلوشہ کے پاس پہنچ گیا
06:37رات کا کھانا کھا کر ہم دونوں تیار ہو کر باہر نکل آئے
06:40پلوشہ ایک بار پھر لڑکے کے روپ میں تھی
06:42لیکن چہرہ چھپانے کے لیے اس نے اپنی پگڑی کا پلو
06:45چہرے پر اس طرح لپیٹ رکھا تھا
06:47کہ اس کی صرف آنکھیں ہی نظر آ رہی تھی
06:49گوز کی آنکھیں بھی کسی کو زیرو زبر کرنے کے لیے کافی تھی
06:52مگر رات کے وقت کوئی کہاں ان پر غور کرتا
06:55قاری غلام محمد کو میں نے بتا دیا تھا
06:57کہ کچھ دیر کے لیے ہم باہر جا رہے ہیں
06:58تاکہ وہ اپنے سنتریوں کو اس کی اطلاع کر دے
07:01کلیشنکوف ہم نے کمرے میں ہی چھوڑ دی تھی
07:03اور دونوں کے پاس سائلینسر لگے
07:05گلاک نائنٹین پسٹال موجود تھے
07:07علام خیل اس کا اپنا گاؤں تھا
07:08اور وہ اس کے چپے چپے سے واقف تھی
07:10میں اور سردار بھی اس گاؤں کو
07:12اچھی طرح کھنگال چکے تھے
07:14اس لیے میرا بھی وہ خوب دیکھا بھالا تھا
07:16یوں بھی علام خیل کو پلوشہ کی پیدائش
07:18کا گاؤں ہونے کی سعادت حاصل تھی
07:20اس لحاظ سے فطری طور پر میرے دل میں
07:22علام خیل کی محبت بسیرہ کیے ہوئے تھی
07:24میں نے کہا جانتی ہو قبیل خان کی وجہ سے
07:26مجھے علام خیل سے نفرد جیسی تھی
07:28مگر آج کل علام خیل مجھے اپنے گاؤں کی طرح
07:30پیارہ لگتا ہے
07:31وہ بولی ایک بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی
07:34سنوبر خان کی حویلی کی طرف
07:35مٹرگشت کے انداز میں جاتے ہوئے
07:37وہ سرگوشی میں بولی
07:38میں نے حیرانی سے پوچھا کون سی بات
07:39وہ جذباتی لہجے میں بولی یہی کہ آخر
07:42آپ کو مجھ میں ایسی کون سی چیز نظر آئی
07:44جو آپ نے مجھے اتنے اونچے مقام پر بٹھا دیا
07:46میں استہزائی انداز میں ہسا
07:48تو مجھ میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں
07:50وہ بولی اگر آپ میں سرخاب کے پر
07:52نہ لگے ہوتے تو وہ کمینی جنیفر
07:54آپ کے پیچھے امریکہ سے یہاں نہ آتی
07:56اور وہ رومانہ آپ کے خاطر
07:57اپنے شہر سے طلاق لینے پر آمادہ نہ ہوتی
08:00میں نے تنزیہ لہجے میں کہا
08:01تو تمہیں ماہین بھول گئی کیا
08:03وہ قیقہ لگاتے ہوئے بولی
08:04آپ کو بھی تو پلوشے خان وزیر بھول گئی ہے
08:07جسے آپ کے بغیر سانس بھی نہیں لیا جاتا
08:09میں نے کہا اچھا فضول باتیں چھوڑو
08:11یہ بحث واپس جا کر کریں گے
08:12سنوبر خان کی حویلی اور بیٹھک متصل تھیں
08:15حویلی شمال کی جانب اور بیٹھک جنوب کی طرف بنی ہوئی تھی
08:18دونوں کے داخلی دروازے مشرق کی جانب تھے
08:20حویلی کی شمالی دیوار پر مشرق اور مغرب دونوں طرف مورچے بنے تھے
08:24جبکہ بیٹھک کی جنوبی دیوار پر مشرق اور مغرب دونوں مورچے بنے ہوئے تھے
08:28گویا حویلی اور بیٹھک کو ملا کر دیکھا جاتا
08:31تو ان کے چاروں کونوں پر مورچے موجود تھے
08:33ہویلی اور بیٹھک کے داخلی دروازوں کے بیچ بس درمیانی دیوار کی ہی آڑ تھی
08:37اس طرح دونوں دروازوں کے سامنے ایک آدمی کھڑا ہو کر دونوں دروازوں کی دیکھوال کر سکتا تھا
08:42ہم دونوں ہویلی اور بیٹھک کے سامنے سے گزرتے چلے گئے
08:45دونوں دروازے بند تھے اور ان کے سامنے کوئی آدمی کھڑا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا
08:49بیٹھک کی جنوبی دیوار سے تھوڑا آگے بڑھ کر ہم مغرب کی جانب مڑ گئے
08:53وہاں سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر چڑھائی شروع ہو رہی تھی
08:56اس ڈھلوان پر بھی اکہ دکہ گھر موجود تھے
08:59گھروں سے بچتے ہوئے ہم تھوڑا سا بلندی پر آئے اور ایک تباہ شدہ گھر میں گھس گئے
09:03دو تین آوارہ کتوں نے ناراضی بھرے انداز میں بھانگ کر ہماری آمد پر ناپسندیدگی کا اعلان کیا
09:09اور احتجاج کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے
09:11وہ گھر کافی عرصے سے تباہ شدہ پڑا تھا
09:14میں اور سردار اس کا اچھی طرح جائزہ لے چکے تھے
09:16ایک کمرے کی چھت جو تھوڑی سلامت تھی اس کے اوپر لیٹ کر ہم حویلی کے جانب دیکھنے لگے
09:21سنوبر خان کی حویلی وہاں سے بلکل نیچے تھی
09:24چاند کی پہلی دوسری تاریخ تھی اس لیے اندھیرہ کافی گہرا تھا
09:28لیکن حویلی کے سہن میں ہونے والی روشنی ہماری کافی مدد کر سکتی تھی
09:31میں نے دوربین آنکھوں سے لگا کر اس طرف دیکھا
09:33مگر اونچی دیواروں نے میری امیدوں پر پانی پھیر دیا
09:36میں نے معجوز ہوتے ہوئے دوربین پلوشہ کی جانی بڑھا دی
09:39وہ بولی کچھ بھی نظر نہیں آ رہا
09:40بس اتنا محسوس ہو رہا ہے کہ چاروں مورچوں میں سنتری موجود ہیں
09:44میں نے کہا حویلی کی دیوار کچھ زیادہ ہی اونچی ہے
09:46اس نے مشورہ دیتے ہوئے کہا میرا خیال ہے
09:49کل دن کو مزید بلندی سے جا کر جائزہ لیں گے
09:51میں نے اس بات میں سر ہلایا
09:53ہاں کل یہاں سے مزید آدمی بھی انگور اڈے والی حویلی کی جانب کچھ کریں گے
09:57وہ بولی اس بارے میں کل پتا چل جائے گا
09:59میں نے کہا چلو چلتے ہیں
10:01وہاں مزید تھیرنا فضول تھا
10:03اس لیے میں نے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا
10:05وہ سر ہلاتے ہوئے اٹھ گئی
10:06واپس بھی ہم اسی راستے سے آئے تھے
10:08بیٹھک اور حویلی کے سامنے سے گزرتے ہوئے
10:10ہم اپنے مسکن تک پہنچے
10:12اور دروازے پر موجود آدمی کو
10:14اپنی پہشان کراتے ہوئے اندر گز گئے
10:16اگلی صبح ناشتہ کر کے
10:17سورج تلو ہونے سے پہلے ہی ہم باہر نکل آئے تھے
10:20پلوشہ اسی طرح ایک لڑکے کے روپ میں تھی
10:22البتہ اپنا چہرہ اس نے پگڑی کے پلو سے ڈھانپا ہوا تھا
10:25ہم دونوں سنوبر خان کی حویلی کے سامنے سے گزرنے کی بجائے
10:28ایک دوسرے رستے سے پہاڑ کی بلندی سر کرنے لگے
10:31سورج کی اچھی طرح نکلنے تک
10:33ہم سنوبر خان کی حویلی کے اقب میں موجود
10:35ایک بلندی پر موجود تھے
10:37اس جگہ سے خالی آنکھوں سے کوئی خاص نگرانی نہیں ہو سکتی تھی
10:40مگر ہمارے پاس ایک طاقتور دوربین موجود تھی
10:43درختوں کے جھنڈ میں چھپ کر ہم بیٹھک اور حویلی کے سہن کا جائزہ لینے لگے
10:47چونکہ یہ بلندی این اس حویلی اور بیٹھک کے اقب میں موجود تھی
10:50اور اس کا فاصلہ اتنا زیادہ نہیں تھا
10:52اس لیے یہاں سے دونوں امارتوں کے سہن کا جائزہ لیا جا سکتا تھا
10:56نامعلوم حویلی بناتے وقت
10:57قبیل خان یا بنانے والے نے اس متعلق کیوں سوچا تھا
11:01شاید اتنی بلندی سے صرف دوربین کی مدد سے ہی محدود سا دکھاؤ ممکن تھا
11:05اس لیے انہوں نے اسے اہمیت نہیں دی تھی
11:08یوں بھی اتنی دور سے دوربین کی مدد سے بھی کسی چہرے کی شناخت ممکن نہیں تھی
11:12بیٹھک کے سہن میں کافی حلچل مچی ہوئی تھی
11:14تین گاڑیاں ہمیں بیٹھک کے دروازے سے نکل کر انگو رڈے کا رخ کرتی نظر آئیں
11:18یقیناً وہ رات کو ہونے والے جشن میں شرکت کرنے جا رہے تھے
11:22مورچوں کا جائزہ لینے پر ہمیں ان میں کوئی حرکت نظر نہیں آئی
11:25تھوڑی دیر دوربین سے حویلی اور بیٹھک کا جائزہ لینے کے بعد
11:28پلوشہ مجھ سے مخاطب ہوئی راجو میرے ذہن میں ایک منصوبہ آ رہا ہے
11:32میں نے کہا بولو سر پر پگڑی لپیٹے مردانہ لباس میں کچھ عجیب ہی دکھائی دے رہی تھی
11:37وہ بولی اگر ہم حویلی میں گھسنے کی کوشش کریں تو شاید کامیاب ہو جائیں
11:41چاروں مورچے خالی ہیں اور بیٹھک میں آدمیوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہوگی
11:45چند لمحے سوچ میں کھوئی رہنے کے بعد میں نے کہا چلو وہ خوش ہو گئی سچ
11:49میں نے کہا اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے
11:51رات کو کم از کم مورچوں میں موجود لوگ تو چوکننے ہوتے ہیں
11:54اس وقت وہ یقیناً بے فکر ہوں گے اور مورچے یوں بھی خالی پڑے ہیں
11:58صرف داخلی دروازے پر ہی کوئی محافظ موجود ہوگا
12:01ہم احتیاط سے نیچے اترنے لگے
12:02دونوں کے پاس سیلنسر لگے ایک لاک موجود تھے
12:05کلیشنکوف ہم کمرے میں ہی چھوڑ آئے تھے
12:07رات جس ویران امارت کی چھت سے ہم نے حویلی کی دیکھ بال کرنے کی کوشش کی تھی
12:11وہاں چند لمحے رک کر ہم نے ایک بار پھر دوربین سے مورچوں کے خالی ہونے کا اتمنان کیا
12:16وہیں پر ایک گرے ہوئے کمرے کی چھت کی کڑیوں میں سے
12:20پلوشہ نے ساڑھے ساتھ آٹھ فٹ لمبی ایک کڑی اٹھا لی
12:23جو میرے بازو کے برابر موٹی تھی
12:25میں نے پوچھا اس کا کیا کروگی
12:26وہ بولی جو بھی میرے قریب آیا سر میں مار کر اس کا سر بھار دوں گی
12:30میں نے شرارتی لہجے میں کہا میرے بھی
12:32ہنستے ہوئے بولی ہاں آپ کے بھی اگر دور جانے کی کوشش کی تو
12:35میں مسکرا کر رہ گیا
12:36مزید کچھ کہے بغیر اس نے اترائی کی جانب قدم بڑھا دیے
12:40بیٹھے کور حویلی کے اقب میں چھوٹا سا خالی میدان تھا
12:43حویلی کے دائیں بائیں جڑا کوئی عمارت یا مکان موجود نہیں تھا
12:47جنوب کی طرف پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر دو تین گھر بنے تھے
12:50اور قریباً اتنے ہی فاصلے پر شمال کی جانب گھروں کا سلسلہ تھا
12:53ان دونوں عمارتوں کے سامنے پختہ سڑک بنی تھی
12:56جو وہاں سے علام خیل اور انگور اڈے کو ملانے والی
12:59مستقل سڑک سے ملاب کرتی تھی
13:01سامنے کی جانب ہی سڑک عبور کر کے ڈھلان تھی
13:03جس کے اختتام پر کچھے پکے مکانات کا سلسلہ شروع ہوتا تھا
13:07وزیرستان کے چند بڑے شہروں جیسے میران شاہ، وانہ، رزمک، مکین وغیرہ میں
13:12تو گلیاں اور کوچھے مل جاتے ہیں
13:13لیکن عام آبادی سلسلے گلیوں وغیرہ کے تکلف سے آزاد ہیں
13:17نظریہ ضرورت کے تحت جس کو جہاں جگہ ملتی ہے وہ اپنا مکان بنا لیتا ہے
13:21دو دو تین تین مکانات اکٹھے ہوتے ہیں
13:23اور پھر درمیان میں ڈھلان، میدان، درختوں کے چھنڈ یا کھیت آ جاتے ہیں
13:27اور پھر چند گھر بنے ہوتے ہیں
13:29بڑے شہروں کے مضافات میں موجود آبادی کی بھی یہی صورتحال ہے
13:32یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بڑے شہروں کی آبادی بھی
13:36پنجاب یا کےپی کے کسی متوسط گاؤں سے زیادہ نہیں ہوگی
13:40جب بڑے شہروں کا یہ حال ہے تو چھوٹے دہاتوں کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں
13:44دھلان سے اتر کر ہم دونوں ایک چٹان کے ساتھ یوں ٹیک لگا کر بیٹھ گئے جیسے تھک کر سستا رہے ہوں
13:50دائیں بائیں کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد ہم نے اقب میں موجود دونوں مورچوں کو بھی بغور دیکھ لیا تھا
13:55دور کھیتوں میں چند عورتیں کام کرتی نظر آئیں
13:58دھلان اترتے وقت ایک بڑھا شخص ہم سے تھوڑا آگے گدھے پر لکڑیاں لادے جا رہا تھا
14:03جو ہمارے چٹان کے ساتھ بیٹھنے کے بعد حویلی سے مشرقی جانب ہوتا ہوا آگے بڑھ کر مزید اترائی اترنے لگا
14:10اور مکانات کے سلسلے میں غائب ہو گیا
14:11انہی مکانوں کے مغربی جانب کچھ بچے اور بچیاں کھیل رہے تھے
14:15لیکن جب ہم بیٹھک کی دیوار کے قریب پہنچ جاتے تو انہیں نظر نہ آتے
14:18مغربی جانب کچھ فاصلے پر دو نازنی بکریاں بھیڑیں چرا رہی تھی
14:22اور وہی دو ایسی جگہ پر تھی
14:24جہاں سے ہمیں آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا
14:27لیکن امید یہی تھی کہ اگر وہ ہمیں دیکھ بھی لیتی
14:29تب بھی حویلی یا بیٹھک کے پاس آ کر کسی کو بتانے کی جررت نہ کرتی
14:33اور اس کی وجہ بیٹھک میں اوباش مردوں کی موجود گی
14:36اور بیٹھک سے منصوب جھوٹی سچی کہانیاں تھیں
14:39جن میں سنف نازو کے ساتھ زیادتی کے واقعات کسیر تعداد میں موجود تھے
14:43اطراف کا جائزہ لینے کے بعد ہم دونوں حدف کے جانے متوجہ ہوئے کہاں سے گھسا جائے
14:48مجلدی سے بولی دونوں عمارتوں کو ملانے والی دیوار مناسب رہے گی
14:51میں نے انکار مصر ہلایا نہیں
14:53یہاں سے گھسنے پر ہم دونوں عمارتوں میں موجود لوگوں کو دکھائی دے سکتے ہیں
14:57اس کی بجائے جنوبی دیوار میں بنے ہوئے مورچے کی جگہ سے اندر داخل ہونے پر
15:01ایک تو دیکھے جانے کا خطرہ کم ہوگا
15:03دوسرا وہاں سے آسانی سے نیچے بھی اتر سکیں گے
15:05وہ بولی آپ کے ساتھ رہ کر میرا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا ہے شاید
15:09ہم دونوں دائیں بائیں دیکھتے ہوئے جنوبی مورچے کے این نیچے آ کر کھڑے ہو گئے
15:13وہ دیوار کافی بلند تھی اور بلکل ہی سیدھی بنی ہوئی تھی
15:16وزیرستان کے لوگ گھر کی بیرونی دیواریں بہت انچی بناتے ہیں
15:19ہر گھر کا نقشہ کسی قلعے کے جیسا ہوتا ہے
15:22چاروں طرف انچی انچی دیواریں اور ان کے بیچوں بیچ چھوٹے چھوٹے کمرے
15:25جن کی چھتیں چار دیواری سے نیچی بنی ہوتی ہیں
15:28دیواروں کے اوپر وہ لوگ پلاسٹک خجور کی چٹائیاں یا پتے وغیرہ ڈال دیتے ہیں
15:32تاکہ بارش ہونے کی صورت میں پانی دیواروں کے اوپر نہ بہسکے
15:35ان دیواروں کی انچائی چودہ فٹ سے تو کم نہیں ہوگی
15:38میرا قد پانچ فٹ نو انچ ہے جبکہ پلوشہ کا قد پانچ فٹ دو انچ ہوگا
15:43اگر اس کے پاؤں میرے اٹھے ہوئے ہاتھوں پر ہوتے تب بھی وہ دیوار کی بلندی کو نہیں چھو سکتے تھے
15:48دیوار کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے ہوئے میں نے پریشانی ظاہر کی گڑ بڑ ہو گئی ہے
15:52اس نے پوچھنے میں تاخیر نہیں کی کیا ہوا
15:54میں نے پریشانی سے کہا اوپر کیسے چڑھیں گے
15:56وہ فوراں سے بولی آپ اس ڈنڈے کا پوچھ رہے تھے نا
16:00تو یہ اسی لئے تو ساتھ لائے ہیں
16:01اس نے وہ موٹی کڑی میری آنکھوں کے سامنے لہرائی
16:03اور جھک کر اپنے بوٹوں کے تسمیں کھولنے لگی
16:06بوٹ اتار کر اس نے جرابیں بھی اتاری
16:08اور جرابیں بوٹوں کے اندر ٹھونس کر
16:10دونوں بوٹوں کے تسموں کو ایک دوسرے سے باندھ کر گلے میں ڈال لیا
16:14تیار ہو کر وہ مجھے طریقہ بتانے لگی
16:16تفصیل سن کر میں سر ہلاتے ہوئے نیچے بیٹھ گیا
16:18اس نے اپنے ننگے پاؤں میرے کندوں پر رکھے
16:20اور دیوار کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی
16:22میں نے اپنی پیٹ دیوار سے لگائی ہوئی تھی
16:24جو ہی اس نے مجھے اٹھنے کا اشارہ کیا
16:26میں اتمنان سے کھڑا ہو گیا
16:28یوں بھی وہ مجھے پھول کی طرح ہلکی سی لگتی تھی
16:30سیدھا ہوتے ہی میں نے وہ مضبوط کڑی
16:32اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑی
16:33اور اس کا ہموار سرہ اوپر کر کے
16:36نچلا سرہ زمین پر ٹکا دیا
16:37ساڑھے سات آٹھ فٹ لمبی کڑی مجھ سے کافی اونچی تھی
16:41اس نے ایک پاؤں میرے سر پر رکھا
16:42اور دوسرا پاؤں بمشکل کڑی کے دوسرے کونے پر ٹکا کر
16:46وہ کڑی کے اوپر منتقل ہو گئی
16:48پلوشہ کا سارا بوجھ کڑی پر منتقل ہو گیا
16:50اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے
16:51اس نے ہالے سے کہا تھوڑا اور اوپر اٹھاؤ
16:54اور میں کڑی کو آہستہ آہستہ اوپر اٹھانے لگا
16:56کڑی کو متوازن پکڑنے کے لیے
16:58میں اسے اپنی گردن اور سر کے درمیان لگایا ہوا تھا
17:01میں بمشکل کڑی کو بلند کر پا رہا تھا
17:03میرے بازو اکڑ گئے تھے اور مجھے محسوس ہو رہا تھا
17:06کہ میں زیادہ دیر کڑی کو اس انداز میں تھامے نہیں رہ پاؤں گا
17:09کم از کم پلوشہ کا وزن پچاس کلو تو ہوگا
17:12اور میں جانتا تھا کہ اگر کڑی میرے ہاتھوں میں
17:14ہلی جولی یا لرزی تو پلوشہ نیچے بھی گر سکتی ہے
17:16اور اسے چوٹ لگنے کے اندیشے پر
17:18میرے بازووں میں پورے جسم کی قوت سمیٹ آئی
17:21میں نے بمشکل فٹ بھر کڑی کو بلند کیا ہوگا
17:24کہ اچانک میرے ہاتھ پاؤں بالکل ہلکے ہو گئے
17:26میں نے گہرا سانس لے کر اوپر کی جانب نظریں اٹھائیں
17:29وہ دیوار کے کنارے میں انگلیاں پھسا کر اوپر چڑھ رہی تھی
17:32کڑی کو ایک طرف پھینک کر میں وہیں نیچے کھڑا ہو گیا
17:35کہ اگر خدانہ خاصتہ اس کے ہاتھ چھوٹ گئے
17:37تو اسے نیچے گرنے سے پہلے سنبھال سکوں
17:39اس وقت کچھ بھی ممکن تھا
17:41مگر میری احتیاط بیکار گئی
17:43وہ دیوار کے اوپر پہنچ کر بیٹھک کے سہن کا جائزہ لینے لگی
17:46چند لمحوں کے بعد وہ مطمئن ہو کر دیوار پر اس طرح لٹ گئی
17:49کہ اس کا پیٹ تو دیوار کے اوپر تھا
17:51نچلا دھڑ دوسری جانب اور ہاتھ میری طرف چھکے ہوئے تھے
17:55اس کے ساتھ اس نے سر سے پگڑی اتار کر
17:57اس کا ایک لمبا سرہ اپنے ہاتھوں میں پکڑا
17:59اور دوسرا سرہ میرے لیے نیچے لٹکا دیا
18:01اس نے پتلی دھوتی نما چادر ہی پگڑی کے انداز میں سر سے لپیٹی ہوئی تھی
18:06میں نے ایک پتھر سے کڑی کا نچلا سرہ جوڑ کر
18:08اسے دیوار کے ساتھ سیدھا کھڑا کیا
18:10اور پلوشہ کی چادر کو پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگا
18:14میری نظر اس کے سرخ پڑتے چہرے پر تھی
18:16صاف لگ رہا تھا کہ اسے بہت زیادہ قوت صرف کرنا پڑ رہی ہے
18:20اسے زیادہ زہمت سے بچانے کے لیے میں نے کڑی کو دیوار کے ساتھ کھڑا کیا تھا
18:24وہ ساڑھے ساتھ آٹھ فٹ لمبی کڑی کافی مدد دے سکتی تھی
18:27تھوڑا سا اوپر ہوتے ہی میں کڑی کے ہموار سرے پر پاؤں رکھنے میں کامیاب ہو گیا
18:31ایک دم پلوشہ کے ہاتھوں پر سے میرا وزن ہٹ گیا
18:34اور میں دیوار کا سہارہ لے کر آہستہ آہستہ کھڑا ہو گیا
18:37میرے ہاتھوں اور دیوار کے کنارے میں چند انچ کا فرق تھا
18:40اس نے دوبارہ میرے ہاتھ تھامنے چاہے
18:42مگر میں اسے مزید مشکت میں مبتلا نہیں کر سکتا تھا
18:45میں نے کہا میں چڑ جاؤں گا تم مورچے میں پہنچو
18:47وہ اسبات میں سر ہلاتے ہوئے دیوار پر چڑھ کر
18:50اس نے دائیں بائیں کا جائزہ لیا
18:51اور پھر سیدھا کھڑے ہو کر مورچے کی ایک جانب نکلے ہوئے لکڑی کے سرے پر پاؤں رکھ کر مورچے میں گھس گئی
18:57اس اسنا میں میں نے اچھل کر دیوار کے کنارے میں انگلیاں پھسائیں
19:00اور اپنے ہاتھوں کے بل اوپر اٹھ گیا
19:02اگلے ہی لمحے میں دیوار پر تھا
19:04اسی دیوار سے چند فٹ نیچے کمروں کی چھت تھی
19:07لیکن چھت پر پاؤں رکھنے میں یہ خطرہ تھا
19:09کہ اگر اس کمرے میں کوئی آدمی بھی موجود ہوتا
19:12تو اسے ایک منٹ میں معلوم ہو جاتا کہ چھت پر کوئی موجود ہے
19:15میں نے ایک سرسری سہن میں نظر دھڑائی
19:17مگر نہ تو داخلی دروازے پر کوئی نظر آیا
19:19اور نہ سہن میں کوئی حرکت نظر آئی
19:21غور کرنے پر مجھے حویلی کے داخلی دروازے کے اندر سے کنڈی لگی نظر آئی
19:25کسی کے نہ ہونے کا اتمنان کرتے ہی میں سررت سے اٹھا
19:28اور پلوشہ کی طرف بڑی ہوئی لکڑیوں پر پاؤں رکھ کر مورچے میں گھس گیا
19:31مورچہ چھ ساتھ فٹ چوڑا اور اتنا ہی لمبا تھا
19:35دیوار کے ساتھ ایک کلیشن کوف کھڑی تھی
19:37تپائی نمہ لکڑی کی میز پر گولیوں سے بھری تین چار میگزینیں بھی رکھی ہوئی تھی
19:41جدید ساخت کی ایک دوربین دیوار سے لٹکی ہوئی تھی
19:44ایک لوہے کی کرسی جس کی ٹانگیں اتنی اونچی تھی
19:47کہ اس پر بیٹھنے والا آسانی سے مورچے کی تین اطراف کی دیواروں میں بنے ہوئے سراخوں میں سے جھانک سکتا تھا
19:53چوتھی سمت میں یوں بھی مورچے کا دروازہ تھا
19:56پلوشہ جرابیں اور بوٹ پہن کر تیار تھی
19:58سر پر باندھی ہوئی چادر کو اس نے مفلر کے انداز میں چہرے پر لپیٹ لیا تھا
20:02جبکہ نیفے میں اڑسا ہوا گلوک نائنٹین اس کے ہاتھ میں نظر آ رہا تھا
20:06وہ ہلہ بولنے کے لیے مکمل طور پر تیار تھی
20:09اس نے مشورہ چاہنے کے انداز میں پوچھا
20:11کلیشن کوف لے لیں
20:12میں نے نفی میں سر ہلایا نہیں
20:13فیلحال اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے
20:15گلوک ہی کافی ہے
20:16میں نے اپنا گلوک بھی ہاتھ میں پکڑ لیا تھا
20:18مورچے کے ساتھ لکڑی کی سیڈی بنی ہوئی تھی
20:20مگر وہ سیڈی اتنی چوڑی ضرور تھی
20:22کہ ہاتھوں کا سہارا لیے بغیر سیڈی سے اترا جا سکے
20:25سیڈی کا اختتام ایک کمرے میں ہو رہا تھا
20:27نیچے اترتے ہی پلوشہ نے اپنی پیٹھ میری پشت سے جوڑتے ہوئے
20:31اقب کی دیکھ بال شروع کر دی
20:32میں نے بارہا پرکھا تھا
20:34کہ اس کا انداز کسی تربیت یافتہ کمانڈوں کا تھا
20:37اس کمرے کے دو دروازے تھے
20:38ایک باہر سہن کی طرف کھلتا تھا
20:40جبکہ دوسرا برامدے کی طرف
20:42ہمارا رخ اندر کی طرف تھا
20:44گلوک کو فائر کی تیار حالت میں تھامے
20:46دبے قدموں میں میں آگے بڑھتا گیا
20:48ایک کمرے سے بے ہنگم موسیقی کی آواز آ رہی تھی
20:51اس کمرے کے دروازے سے ہم ایک لمبے چوڑے برامدے میں داخل ہوئے
20:55جس کی مغربی جانب کمروں کے دروازے
20:57اور مشرقی جانب بیٹھک کا کھلا اور وسی سے ہن تھا
21:00کمروں کی یہ قطار دیوار کے اختتام کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی تھی
21:03بلکہ شمالی دیوار کی طرف مڑ جاتی تھی
21:06اگر مغرب کی جانب سے دیکھا جاتا
21:08تو وہ کمرے اور برامدہ انگریزی کے حرف
21:10ال کی طرح نظر آ رہا تھا
21:11شمالی جانب ان کمروں اور برامدوں کے اختتام پر
21:14ایک الہدہ کمرہ بنا ہوا تھا
21:16شاید وہ سنتریوں کے لیے بنا تھا
21:18جنوب مشرقی دیوار کے ملاب پر بھی
21:20جنوب مغربی دیوار کے کونے کی طرح
21:22ایک طویل کمرہ بنا ہوا تھا
21:23جس پر ایک مورچہ موجود تھا
21:25جس سے مشرق اور جنوب کی جانب کی دیکھ پھال کی جا سکتی تھی
21:29مورچے والے مشرقی اور مغربی دونوں کمروں کے درمیان
21:32تھوڑی سی جگہ خالی تھی
21:33اور پھر دو تین کمرے بنے نظر آ رہے تھے
21:35جن کے سامنے اپنا برامدہ موجود تھا
21:37مشرقی دیوار کے ساتھ دو تین غسل خانے اور بیت الخلا بنے تھے
21:41اور ان کے بعد گاڑیاں کھڑی کرنے کے لیے ایک گراج بنا ہوا تھا
21:44جس میں پانچھے گاڑیاں بہ آسانی کھڑی کی جا سکتی تھی
21:47اس وقت بھی ایک سنگل کیبن کھڑی تھی
21:50مورچے والے کمرے شرکن غربن طول لیے ہوئے تھے
21:53مغربی جانب مورچے والا کمرہ دوسرے کمروں کی چوڑائی
21:56اور برامدے کی چوڑائی کے برابر لمبت تھا
21:58مغربی جانب کمروں کی قطار میں آٹھ دروازے میں نے گنے
22:01جن میں سے صرف دو کے دروازے کھلے تھے
22:04ایک ہماری طرف سے دوسرا کمرہ اور دوسرا آخری کمرہ جس سے موسیقی کی آوازہ رہی تھی
22:09بند کمروں کو نظر انداز کر کے میں نے پہلے آنے والے کھلے کمرے میں جھانکا
22:13مگر کمرہ بالکل خالی تھا
22:14اس دوران پلوشہ سہن اور جنوبی دیوار کے ساتھ بنے ہوئے کمروں کی جانب متوجہ رہی
22:19ہم مہتات مگر ذرا تیز قدموں سے آخری کمرے کے قریب پہنچے
22:23دروازے سے ذرا پہلے رکتے ہوئے میں نے پلوشہ کے کان میں مو لگاتے ہوئے کہا
22:27تم باہر ہی رہنا
22:27اس نے سرگوشی کی ٹھیک ہے
22:29میں کھسکتا ہوا کھلے دروازے کے قریب ہوا
22:32اب موسیقی کی آواز کے ساتھ ایسی حیوانی اور قبیح آوازیں بھی میرے کانوں میں پڑھنے لگی
22:37جو دیکھے بغیر کمرے کا اندروری منظر آشکار کر رہی تھی
22:40میں نے دل ہی دل میں شکر کیا کہ میں پلوشہ کو باہر رکنے کا کہہ چکا تھا
22:44کمرے کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے
22:46اس لیے مجھے دروازے کو ٹھوکر مار کر یا تھکیل کر اندر داخل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
22:51میں گلوک دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے چھلانگ مار کر اندر گھسا
22:54کیونکہ پسٹول کو اگر ایک کی بجائے دونوں ہاتھوں میں تھاما جائے
22:57تو درست نشانہ لینے میں آسانی رہتی ہے
23:00خبردار اگر کسی نے حرکت کی
23:01میری آواز اتنی بلند تھی کہ کمرے میں موجود آدمی ہی سن سکتے تھے
23:05چینل کو سبسکرائب کیجئے اور بیل آئیکن پر کلک کیجئے
23:11تاکہ آپ کو تمام ویڈیوز فوراں ملتی رہیں