Sniper series episode 60 a story full of thrill and suspense operation in waziristan most deadly operation in waziristan
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
Category
😹
FunTranscript
00:00موسیقی
00:30موسیقی
01:00موسیقی
01:30موسیقی
02:00موسیقی
02:30موسیقی
03:00موسیقی
03:30موسیقی
04:00موسیقی
04:30موسیقی
04:32موسیقی
04:34یہ ہر فیرون کی فطرت میں شامل ہے کہ جب موت کو سامنے پاتا ہے
04:38تو صدرنے کے دعوے شروع کر دیتا ہے
04:40قوم کا سردار قوم کی ہر لڑکی کے باپ کی جگہ ہوتا ہے
04:43لیکن باپ اپنی بیٹیوں کے کپڑے تو نہیں پھارتا
04:45تف ہے تم جیسے گندے باپ پر
04:47یہ کہتے ہی پلوشہ نے پسطول سیدھا کیا
04:49سنوبر خان نے دہشت زدہ ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا لیے
04:52گویا گولیوں کو روک رہا ہوں
04:54مگر گولیاں ایسی ڈھال سے نہیں رکا کرتی
04:56پلوشہ ترس کھائے بغیر مسلسل ٹرگر دباتی گئی
04:59جہاں تک کہ پسطول خالی ہو گیا
05:01اس کی میگزین میں چھ گولیاں بجی ہوئی تھی
05:03دو سنوبر خان کے سر اور باقی چھاتی میں لگی
05:06اس سے زیادہ دیر پھڑکنے کا موقع نہیں ملا تھا
05:08اس کے ساکت ہوتے ہی میں نے کہا پلوشے چلو
05:10وہ جیسے کسی گہرے خیال سے چونکتے ہوئے بولی
05:13ہاں ہاں چلیں
05:14ہم باہر نکل آئے
05:15اور گاڑی میں بیٹھ کر انگو رڈے کی جانب چل دیئے
05:18ایک بہت بڑا مرحلہ بخیر و خوبی گزر گیا تھا
05:21پلوشے نے اپنے چھوٹے بھائی ماں
05:23اور اپنی حتک کا بدلہ لے لیا تھا
05:25جبکہ میں نے ایک اور دہشتگرد کو
05:27کیفرے کردار تک پہنچا دیا تھا
05:28اب مجھے آگے کا لائے عمل دائے کرنا تھا
05:31گو اب تک میں خود میں اتنی جررت مفقود پاتا تھا
05:34کہ پاک آرمی کے کسی ذمہ دار سے رابطہ کروں
05:36ایلبرٹ بروک نے میری جس قسم کی ویڈیوز تیار کی ہوئی تھی
05:39ان کے مطابق میرے آرمی سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی
05:42ایک سازش سمجھی جاتی
05:43اب میرے آرمی سے رابطہ کرنے پر لازمی بات ہے
05:46سب سے پہلے مجھ سے یہی مطالبہ کیا جاتا
05:48کہ میں گرفتاری پیش کروں
05:49اور جب تک میں اپنی بے گناہی کے ثبوت نہ ڈھونڈ لیتا
05:52میری گرفتاری پیش کرنا ممکن نہیں تھا
05:54اور لازمی بات ہے
05:55گرفتاری پیش نہ کرنے کی صورت میں
05:57مجھے سچ مچ غدار قرار دیا جاتا
05:59اور غدار کے لیے احکام تبدیل ہو جائے کرتے ہیں
06:02کوئی مناسب لائے عمل
06:03مجھے سجائی نہیں دے رہا تھا
06:05آخر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ پلوشہ کو گھر چھوڑ کر
06:08واپس اپنی بے گناہی کے ثبوت
06:10دھوننے نکلوں گا
06:11اور ثبوت ملنے کے بعد کسی ذمہ دار سے ملاقات کروں گا
06:13ایک صورت یہ بھی تھی کہ میں
06:14اپنی یونٹ کے کماننگ آفسر کے پاس جا کر
06:17ساری کہانی میں نوان بیان کر دیتا
06:19لیکن اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ میرا ویڈیو بیان تھا
06:22جس میں میں نے کرنل کالن فیلڈ کے پوچھنے پر
06:24بڑے جوش و خروش سے پاک آرمی کے اندر رہتے ہوئے
06:27ان کے لیے کام کرنے کی حامی بھری تھی
06:28اس بیان کے بعد میری ذات حد درجے مشکوک ٹھہرتی تھی
06:31مجھے خاموش پا کر پلوشہ نے پوچھا چپ کیوں ہو
06:34میں نے کہا میرا خیال ہے گھر چلتے ہیں
06:36تمہاری امی جان اور بھائی کو بھی تلہ گنگ چھوڑاتے ہیں
06:39شادی کا باقاعدہ اعلان کر دیں گے
06:41بلکہ دوبارہ شادی ہی کر لیتے ہیں
06:43وہ شرارت سے بولی میں اپنی شادی میں ناچوں گی
06:45میں نے کہا شرم نہیں آئے گی
06:47بولی شرم کیسی
06:47خوشی کے موقع پر عورتوں کا عورتوں کے مجبے میں ناچنا عام ہے
06:51میں نے کہا مگر دلہن تو نہیں ناچا کرتی
06:53وہ ڈھٹائی سے بولی
06:54جس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے وہ ناچتی ہے
06:56میں نے ہستے ہوئے کہا تم بس میرے سامنے ناچ لیا کرنا
06:59وہ زبان نکال کر مجھے چڑھاتے ہوئے بولی
07:01آپ کے سامنے تو بالکل بھی نہیں ناچوں گی
07:04میں نے اسے چھیڑا پھر عورتوں میں بھی نہیں ناچنے دوں گا
07:06وہ بولی آپ کون سا وہاں موجود ہوں گے
07:08میں نے کہا میں پھوپو کو بتا دوں گا
07:10وہ تم پر نظر رکھے گی
07:21سورٹے پہنچ کر میں نے گاڑی نصراللہ خان کے گھر کے سامنے روک دی
07:24رات کے اس پہر انہیں بے آرام کرنا مناسب نہیں تھا مگر مجبوری تھی
07:27انہیں گھر سے بلا کر میں نے گلی ہی میں کھڑے کھڑے مختصر صورتحال سے آگاہ کیا
07:31اور بیرٹ ایم ونزرو سیون ان کے پاس چھوڑ کر
07:34ہم اجازت لے کر چل پڑے
07:36صوبہ دم ہم وانہ پہنچ گئے تھے
07:37کمانڈر نصراللہ سے ہم نے وانہ میں مجاہدین کے ایک ٹھکانے کا پتہ معلوم کیا تھا
07:42وہاں گاڑی چھوڑ کر ہم نے پرتکلف ناشتہ کیا
07:44فجر کی نماز پڑی اور ویگن ہڈے جا کر
07:47ڈیرہ اسماعیل خان جانے والی گاڑی میں بیٹھ گئے
07:49راجو ایک بات کہوں
07:50ہم وانہ سے نکل کر تھوڑی دور آئے تھے
07:52کہ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر دھیمے لہجے میں بولی
07:55میں نے کہا منہ کس نے کیا ہے
07:56وہ بولی ایک کار لے دو
07:58مجھے بہت شوق ہے اپنی کار چلانے کا
08:00میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا جہیز میں لڑکیاں کار لائے کرتی ہیں
08:03سمجھی
08:03وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی آپ کو تو پتا ہے میں کتنی غریب ہوں
08:06میں نے کہا مزاگ کر رہا تھا چندہ
08:08ایک چھوڑ دو کاریں لے دوں گا
08:10وہ بولی نہیں بس ایک ہی کافی ہے
08:11میں مسکر آیا پچاس لاکھ میں تو تین کاریں آ جائیں گی
08:14وہ بولی بس ہر وقت پچاس لاکھ کے تانے دیتے رہتے ہو
08:17میں نے کہا تو کیا تمہاری امی پچاس لاکھ نہیں لیں گی
08:20وہ ہٹ دھرمی سے بولی اب تو ضرور لیں گی
08:22اور میں کار بھی لوں گی
08:23اور کچھ
08:24ویگن پہاڑی رستوں پر چکر کاٹتے ہوئے آگے بڑھتی جا رہی تھی
08:27میں نے سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لی
08:29ڈرائیور نے کوئی پشتو گیت لگایا ہوا تھا
08:32پلوشہ ہلکی آواز میں گیت گنگنا رہی تھی
08:44آدھے گھنٹے کا راستہ تھا
08:46رکشے والے کو فارغ کر کے ہم چھوٹے سے پختہ مکان کی طرف پڑھے
08:49اور پلوشہ نے اطلعہ گھنٹی کا بٹن دبایا
08:52چند لمحوں بعد اندر سے ایک زنانہ آواز ابری کون
08:54وہ بولی امی جان میں ہوں پلوشہ
08:56ایک ادھیڑ عمر خاتون کے چہرے کے نقوش بلکل پلوشہ کی طرح تھے
09:00پلوشہ فوراں ماں سے لبٹ گئی
09:02ماں نے اس کا ماہ تھا چومام کیسا ہے میرا بیٹا
09:04پلوشہ نے انہیں میری جانے متوجہ کیا
09:07بیٹا تو آپ کا یہ ہے ماں جی
09:08وہ چونک کر میری جانے متوجہ ہوئی
09:10اس کے ساتھ ہی ان کے چہرے پر شفقت بھری
09:12مسکراہاں ڈوبری
09:13یقینا میں اپنے بیٹے زیشان کو دیکھ رہی ہوں
09:16مجھے اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی
09:18کہ پلوشہ انہیں میرے بارے میں بتا چکی تھی
09:20میں نے اپنا سر ان کے نزدیک جھکا دیا
09:22جی ماں جی
09:22جیت رہو بیٹا
09:23میری پیشانی چوم کر مجھے اندر آنے کا راستہ دیا
09:26اس کا چھوٹا بھائی بھی گھر میں ہی موجود تھا
09:28وہ پلوشہ سے لپٹ کر پیار کرنے لگا
09:30پلوشہ کے بعد میں نے اسے بازو میں اٹھا کر اس کا نام پوچھا
09:33اس نے شرماتے ہوئے کہا عدیل خان
09:35میں نے کہا کس کلاس میں پڑھتے ہو
09:37وہ بولا میں سکول نہیں جاتا
09:39اس کے جواب پر پلوشہ کی جانب دیکھا
09:41اور اس نے دکھی انداز میں سر جھکا لیا
09:43واقعی غربت انسان سے بہت سے حقوق چھین لیا کرتی ہیں
09:46میں نے اسے نیچے اتار کر چار پائی پر بٹھایا
09:48اچھا مگر اب تو جانا پڑے گا
09:50وہ دوبارہ پلوشہ کی گود میں جلا گیا
09:52پلوشہ نے وضاحت کرنا چاہی
09:54وہ اصل میں
09:55میں نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے کہا
09:57میں سب جانتا ہوں
09:58اب یہ بھی پڑھے گا
09:59اور تمہاری بھی کوئی خواہش تشنا نہیں رہے
10:01وہ بولی ہاں میں جانتی ہوں
10:03اس کی ماں شربت کا جگ بنا کر لے آئی
10:11وزیرستان میں اچھی خاصی سردی تھی
10:12مگر ڈیرہ اسماعیل خان کے گرم موسم میں
10:15ہمیں شربت کی ہی ضرورت محسوس ہو رہی تھی
10:17پانی پلا کر وہ میرے سامنے ہی بیٹھ گئی
10:19اس وقت جانے پلوشہ کو ماں نے کوئی اشارہ کیا
10:22یا وہ اپنی مرضی سے ہی
10:23اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر کمرے سے نکل گئی
10:25اس کے کمرے سے نکلتے ہی
10:27جب میری سانس نے بات چیت شروع کی
10:28تو مجھے اندازہ ہوا
10:29کہ پلوشہ کو انہوں نے ہی وہاں سے جانے کا اشارہ کیا تھا
10:33وہ بولی بیٹا
10:34پلوشہ مجھے آپ کے بارے میں سب بتا چکی ہیں
10:36یہ میری خوش قسمتی ہے
10:37کہ آپ پلوشہ کو پسند کرتے ہیں
10:39ہمارے حالات جاننے کے باوجود
10:41آپ نے نہ صرف پلوشہ کا ساتھ دیا
10:42بلکہ آپ کی وجہ سے وہ قبیل خان جیسے
10:44موزی کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکی
10:47یقین مانو پلوشہ نے میری بیٹی کی بجائے
10:50بیٹے کا کردار ادا کیا ہے
10:51اب جب کہ وہ ہر ذمہ داری سے سبگدوش ہو چکی ہے
10:54تو میں چاہوں گی کہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے
10:56اس بارے میں آپ نے کیا سوچا ہے
10:58میں نے کہا بس ابھی تھوڑی دیر میں ہم یہاں سے نکلیں گے
11:01شام تک میرے گھر پہنچ جائیں گے
11:02کل یا پرسوں سادگی سے نکاح پڑھا لیں گے
11:05میری بات پر اس سادہ خاتون کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا
11:08اللہ پاک آپ کو خوش رکھے
11:09آپ کی جوڑی ہمیشہ سلامت رکھے
11:11میں نے ان کی دعا پر پرزور انداز میں کہا آمین
11:14سو مامین کہہ کر
11:15انہوں نے بھی اللہ پاک کی رحمت کو پکارا
11:18میں نے کہا آپ اپنا ضروری سامان سمیٹیں
11:20میں پلوشہ کو کہہ دیتا ہوں
11:22کہ وہ مالک مکان کو فون کر کے یہیں بلوالے
11:24تاکہ اسے چابیاں واپس کر دیں
11:26پھر میں گاڑی لے آؤں گا
11:27دن کا کھانا انشاءاللہ راستے میں ہی کھائیں گے
11:30وہ بولی مکان کی جابیاں مالک مکان
11:32کو دینے کی ضرورت کیا ہے
11:33پرسوں ترسوں تو میں اور عدیل واپس آ جائیں گے
11:35میں حتمی لہجے میں بولا نہیں ماجی
11:37اب آپ دونوں بھی ہمارے ساتھ رہیں گے
11:39اس نے ہچک جاہٹ کا اظہار کیا مگر بیٹا یہ مناسب نہیں
11:42میں نے کہا ماجی میں نہیں چاہتا
11:43کہ پلوشہ آپ دونوں کی وجہ سے پریشان یا دکھی رہے
11:46اللہ پاک کا دیا ہوا سب کچھ ہے
11:47یقیناً اکٹھے رہنا ہماری خوشیوں کو
11:50چار چاند لگا دے گا
11:51وہ بولی اللہ پاک آپ کو سکھی رکھے بیٹا
11:53وہ جذباتی انداز میں دعائیں دینے لگیں
11:55چلیں اٹھے پھر تیاری کریں
11:57میں کمرے سے باہر نکلا
11:58پلوشہ مجھے باورچی خانے میں مصروف نظر آئی
12:01عدیل بھی وہیں ایک لکڑی کی چوکی پر بیٹھا ہوا تھا
12:04میں نے پوچھا پلوشہ مالک مکان کا فان نمبر ہے
12:06وہ بولی ہاں گھر کے موبائل میں سیف تو کیا تھا
12:09میں نے کہا تو اسے کال کر کے بلوالو
12:11تاکہ مکان کی چابیاں اس کے حوالے کریں
12:13عدیل اور ماں جی تو پکے پکے ہمارے ساتھ جائیں گے
12:16شکر گزاری سے برپور نگاہ میرے چہرے پر ڈالتے ہوئے
12:18وہ سر ہلاتی ہوئی موبائل فون اٹھانے چل پڑی
12:21تھوڑی دیر تک مالک مکان وہاں پہنچ گیا تھا
12:24چونکہ پلوشہ پہلے ہی سے چند ماہ کا کرایا اس کے حوالے کر چکی تھی
12:27اس لیے ہم نے بس مکان کی چابی اس کے حوالے کی
12:30اور بتا دیا کہ جاتے وقت ہم تالہ لگاتے جائیں گے
12:33میرے منع کرنے کے باوجود دوپہر کا کھانا پلوشہ نے تیار کر دیا تھا
12:36کھانا کھا کر میں انہیں سامان تیار کرنے کا کہہ کر
12:39بنو اڈے پہنچ گیا
12:41وہاں سے تلہ گنگ کے لیے میں نے ٹوٹی کار ہائر کی
12:44اور ڈرائیور کے ساتھ واپس پہنچ گیا
12:46پلوشہ ماہ کے ساتھ مل کر ضروری سامان سمیٹ چکی تھی
12:49جو دو پرانے بیگوں میں ٹھوستیا گیا تھا
12:51کار کی ڈگی میں سامان کا بیگ رکھ کر
12:53ہم تلہ گنگ کی طرف روانہ ہو گئے
12:55راستہ میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا
12:57ڈیرہ اسماعیل خان سے تلہ گنگ تک ساڑھے پانچ گھنٹوں کا سفر تھا
13:01ہم سپہر پانچ بجے گھر کے دروازے پر اتر رہے تھے
13:03ڈرائیور کو فارغ کر کے میں سامان کے دونوں بیگ اٹھا کر گھر میں داخل ہوا
13:07کئی ماہ کے بعد گھر لوٹ رہا تھا
13:09اس طوران نہ تو ابو جان سے فان پر بات ہوئی
13:12اور نہ میں کوئی چٹھی یا خط وغیرہ بھیج سکا تھا
13:15ابو جان سہن میں بچھی چارپائی پر تکیہ سے ٹیک لگائے لیٹے تھے
13:18مجھے دیکھتے ہی وہ حقیقتاً اچھل پڑے
13:20چارپائی سے اٹھ کر وہ ہاتھ پھیلائے ہوئے میری طرف بڑھے
13:23باورچی خانے میں بیٹھی پھوپو جان نے بھی انہیں یوں بھاگتے دیکھ لیا تھا
13:27وہ بھی باورچی خانے سے باہر نکل آئیں
13:29شانی پتر
13:30مجھے دیکھتے ہی پھوپو جان نے آواز لگائی
13:33اس وقت تک ابو جان مجھے باہوں میں سمٹ چکے تھے
13:35ابو جان کے بعد پھوپو جان بھی مجھے وارفتگی سے ملی
13:38اس طوران پلوشہ اور اس کی ماں ہمیں دلچسپی سے دیکھتے رہے
13:41یہ مہمان
13:42جذبات کا طوفان تھمتے ہی پھوپو نے سوالیہ لہجے میں پوچھا
13:46اور پلوشہ کی ماں کے جانب مسافے کا ہاتھ پڑھایا
13:48میں نے کہا پھوپو جان یہ لڑکی کی ماں ہے
13:51آپ ذرا لڑکی کو دیکھ کر بتائیں شادی کے لیے کیسی رہے گی
13:54میں نے پلوشہ کی طرف اشارہ کیا
13:56پھوپو جان ششدر رہ گئی ہائیں
13:58اور پھر پلوشہ کو دیکھا جو نفاست سے دوپٹہ اوڑے
14:01کسی شہزادی کی طرح دکھائی دے رہی تھی
14:03کھر میں داخل ہوتے ہی اس نے نقاب اتار دیا
14:05کیا یہ سچ ہے
14:06پھوپو جان نے حکلاتے ہوئے ہاتھ پھیلائے
14:08اور اگلے ہی لمحے پلوشہ ان کی مہربان آغوش میں تھی
14:11وہ بے ساختہ اس کا معصوم چہرہ چوننے لگی
14:14پھوپو جان کی وارفتگی دیکھتے ہوئے پلوشہ اور زیادہ شرما گئی
14:18آئے ہائے اتنی پیاری لڑکی تو میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی
14:21پھوپو جان نے پلوشہ کو اپنے ساتھ لپٹائے رکھا
14:23آئیں بیٹھے بہنجی
14:24ابو جان نے پلوشہ کی ماں کو چار پائیوں کی طرف بلایا
14:27اور خود عدیل خان کو بازوں میں اٹھا لیا
14:30تھوڑی دیر بعد ٹھنڈے پانی سے پیاس بجھا کر ہم جائے بھی رہے تھے
14:33پھوپو جان تو پلوشہ پر صد کے واری جا رہی تھی
14:36انہیں ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا
14:38کہ میں اپنے لیے ایک ایسی لڑکی ڈھونڈ کر لا سکتا ہوں
14:40رات کو کھانے کے بعد میں نے ابو جان کو پلوشہ کی کہانی سنائی
14:44اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا
14:45کہ اس کی امی جان اور چھوٹا بھائی بھی ہمارے ساتھ رہیں گے
14:48ابو جان میرے فیصلے سے بہت خوش تھے
14:50اسی رات پھوپو جان نے جھٹ منگنی پٹ بیاخ کا حکم سادر کر دیا
14:54اب انہیں یہ تو معلوم نہیں تھا
14:55کہ ہم دونوں پہلے سے ہی میاں بیوی تھے
14:57یوں بھی یہ بتا کر میں انہیں خفا نہیں کر سکتا تھا
15:00ایک مسئلہ یہ پیدا ہو رہا تھا
15:01کہ پلوشہ کی ماں اردو صحیح طریقے سے نہیں بول سکتی تھی
15:04جبکہ پھوپو جان اور ابو جان کو پشتو نہیں آتی تھی
15:07پھوپو جان اور پلوشہ کی ماں گلناس کے درمیان پلوشہ ہی ترجمان بنی ہوئی تھی
15:11اگلی صبح میں اپنے دوست اویس کے گھر کی طرف چل پڑا
15:14تاکہ اسے شادی کے بارے میں بتا سکوں
15:16گھر سے نکلتے ہی میری نظر ریڈی والے پر پڑی
15:19جو تازہ سبزی سجائے میرے گھر کے دروازے سے بیس پچیس گز دور کھڑا تھا
15:23اس کے پاس گزرتے ہوئے میں نے سرسری نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی
15:26لیکن اسے پہچان نہ سکا
15:28یوں بھی فوجی حضرات اپنے گاؤں کے باسیوں کو کم ہی جانتے ہیں
15:31اس سے سبزی خریدنے والے ایک آدمی کو تو میں جانتا تھا
15:34کہ وہ ہمارا پڑوسی سرفراز صاحب تھا
15:36البتہ دوسرا خریدار بھی میرے لیے اجنبی تھا
15:39میں آگے بڑھتا گیا
15:40میرے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر اویس کا گھر تھا
15:43دوسری گلی کا موڑ مڑتے ہوئے میں نے بے خیالی میں پیچھے مڑ کر دیکھا
15:46اور ریڈی سے سبزی خریدنے والے کو اپنے پیچھے آتا دیکھا
15:49مجھے عجیب سا لگا
15:50کیونکہ میرا مشاہدہ تھا کہ ریڈی سے سبزی خریدنے والے
15:53عموماً اسی محلے کے ہوتے ہیں
15:55جہاں ریڈی والا موجود ہوتا ہے
15:57کوئی اتنی دور سے سبزی خریدنے کسی مستقل دکان پر تو جا سکتا ہے
16:01ریڈی پر نہیں
16:02لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا
16:04کہ شاید وہ اتفاقاً وہاں سے گزرا ہو
16:06اس لئے اس نے اپنے لئے سبزی خرید لی ہو
16:08موڑ مڑ کر اویس کی بیٹھے کے قریب پہنچتے ہوئے
16:11میں نے ایک مرتبہ پھر پیچھے دیکھا
16:12لیکن وہ سبزی والا غائب تھا
16:14البتہ ایک آدمی ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی کتابوں کا بندل اٹھائے نظر آیا
16:18میں نے سر چھٹک کر اویس کے دروازے پر دستک دی
16:20اویس کے آنے تک کتابیں بیچنے والا میرے پاس سے گزر کر آگے بڑھ گیا تھا
16:24اس وقت اویس نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا
16:27مجھے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے
16:30ابے تو زندہ ہے
16:31وہ بازو پھیلاتے ہوئے مجھ سے لپٹ گیا
16:33معانکہ کر کے وہ مجھے بیٹھک کے اندر لے گیا
16:36اندر داخل ہوتے ہی اس نے بیٹھک کی
16:38گھر کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے
16:40اپنی بیوی کو آواز دے کر چائے کا بتایا
16:42اس کی بیوی عرم مجھے اچھی طرح جانتی تھی
16:44وہ بولا اب سناو جانی
16:46بہت عرصے بعد چھٹی آئے ہو
16:47تکیہ اٹھا کر میری گود میں رکھتے ہوئے
16:49وہ میرے سامنے چار بائی پر بیٹھ گیا
16:51میں ہسا بس یار تمہارے لیے بھاوی جونڈ رہا تھا
16:54وہ حیرانی سے چیخ پڑا کیا میں سمجھا نہیں
16:56اسی وقت گلی میں ایک فقیر کی صدا سنائی دینے لگی
16:59نامعلوم کیوں وہ آواز سن کر میرا دل
17:02بے ترہاں دھڑکنے لگا
17:03پھری چھٹی حص کسی بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہی تھی
17:06مجھے خاموش پا کر اس نے دوبارہ آواز دی
17:08اب ایک اس سوچ میں غرق ہو گئے
17:10میں نے کہا وہ آہ کچھ نہیں
17:12بس کل میری شادی ہے
17:13اس بارے میں اطلاع دینے آیا ہوں
17:15وہ بولا وہی تو پوچھ رہا ہوں یہ ایک دم کیسے
17:17میں نے کہا عرم بہن کی طرح
17:19مجھے بھی ایک پتھان لڑکی ٹکرا گئی
17:21اور میں نے فیصلہ کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا
17:24اس نے اشتیاق سے پوچھا
17:25فلسفہ نئی مہترم مکمل تفصیل
17:27اور میں اسے پلوشہ کے بارے میں ضروری باتیں بتانے لگا
17:30اسی دوران عرم بہن چائے لے آئے
17:32اویس پلوشہ کے تذکرے کو بڑے غور سے سنتا رہا
17:35میں نے اسے پلوشہ سے شادی ہو جانے کی بابت بھی سچ سچ بتا دیا
17:39میری بات ختم ہوتے ہی اس نے پوچھا
17:41تو اب دوبارہ شادی کرنے کا مطلب
17:42میں نے کہا جار پلوشہ کی ماں
17:44اور میرے گھر والے تو اس شادی سے لا علم ہیں
17:46تو کیوں نہ دوبارہ شادی کر کے انہیں خوش ہونے کا موقع دیا جائے
17:50وہ بولا ہم چلو جیسے تمہاری مرضی
17:52میں اس کے ساتھ گھنٹا ڈیڑھ گھنٹا گپ شپ کرتا رہا
17:55اس دوران میرے دماغ میں عجیب قسم کے اندیشے پرورش پاتے رہے
17:58میری چھٹی حص مجھے بار بار آنے والے خطرے سے آگاہ کر رہی تھی
18:02بظاہر سب کچھ ٹھیک تھا
18:04مگر درپردہ کسی توفان کی آمد کے آثار نہائیت واضح تھے
18:08عویس نے جلد ہی میری بے توجہی کو جان دیا
18:10وہ تنزیل حیزے میں بولا شاید کافی دیر سے آپ پلوشہ کو دیکھ نہیں پائے
18:15اس لیے ہر بات کے جواب ہاں ہوں سے زیادہ نہیں دے رہے
18:17اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ واپس چلے جائیں
18:19میں نے کہا ٹھیک ہے چلتا ہوں
18:21وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آیا اور سپہر کو ملنے کا کہہ کر
18:24الویدائی مسافہ کرنے لگا
18:26گلی میں نکلتے ہی میں نے محتاط انداز میں دائیں بائیں دیکھا
18:29سفید کارٹن کا سوٹ پہنے ایک آدمی سامنے سے آتا دکھائی دیا
18:32میں نے اسی طرف جانا تھا
18:34میں اس کے قریب سے گزرتا چلا گیا
18:36اگلی گلی میں ایک سبزی کی ریڑی والا آہستہ روی سے جاتا دکھائی دیا
18:40میں تیز رفتاری سے چلتے ہوئے اس کے پاس سے گزرتا چلا گیا
18:43چند قدم آگے جا کر میں نے ایک دم پیچھے مڑ کر دیکھا
18:46مگر وہ میری طرف متوجہ نہیں تھے
18:48اس کے باوجود مجھے اپنے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی نظر آئیں
18:51میں نے کبھی کسی ایجنسی کے لیے کام نہیں کیا تھا
18:54مگر ان کے طریقے کار سے اچھی طرح واقف تھا
18:56نہ جانے کیوں مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میرے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے
19:00یا شاید وہ میرے اندر کا خوف تھا
19:02جو ہر رہ گیر مجھے آئی ایس آئی کا رکن نظر آ رہا تھا
19:05میں نے سر جھٹک کر اس خیال کو دماغ سے نکالنے کی کوشش کی
19:09مگر کوئی خاص کامجابی نہیں ہوئی
19:11گھر پہنچنے پر مجھے محلے کی کافی خواتین سہن میں بیٹھی نظر آئیں
19:14مجبوراً میں بیٹھک میں گھس گیا
19:16ابو جان وہاں پہلے سے موجود تھے
19:18پلوشہ کا چھوٹا بھائی عدیل خان ان کے پاس ہی تھا
19:21عدیل خان کو بھی پشتوں کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی
19:24ابو جان اس کے لیے نمکو وغیرہ لائے تھے
19:27اور وہ ان کے پاس بیٹھا نمکو کھانے میں لگا ہوا تھا
19:29میں السلام علیکم کہتا ہوا اندر داخل ہوا
19:31سلام کا جواب دیتے ہوئے ابو جان کہنے لگے
19:34صبح سے کہاں غائب ہو جار
19:35نہ تو عدیل خان کی سمجھ میں میری بات آتی ہے
19:37اور نہ اس کی باتیں میرے پلے پڑ رہے ہیں
19:39جبکہ پلوشہ بیٹی بہت اچھی اردو بولتی ہے
19:51اور میں کھل کھلا کر ہس پڑا
19:53اسی وقت فپو جان نے اندر آ کر کھانے کا پوچھا
19:56میں نے کہا فپو جان بھیجوا دیں
19:58اور خود زحمت نہ کرنا گھر میں کوئی اور بھی تو موجود ہوگا
20:01وہ بولی اور کون ہے گھر میں
20:02اب دلہن بیٹی تو تمہیں کھانا دینے آنے ہی سکتی
20:05میں نے ماتھے پر ہاتھ مارا
20:07ٹھیک ہے آپ ہی لے آئیں
20:08فپو جان دو ٹوک لہجے میں بولی
20:10مہینہ بھر تو میں دلہن کو کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دوں گی
20:14میں نے کہا ٹھیک ہے فپو جان
20:15اسے چڑھا لو سر پر
20:16مگر بعد میں مجھے گلانا کرنا
20:18وہ بولی شانی میں پلوشہ بیٹی کے خلاف بات نہیں سنوں گی
20:21میں نے کہا چلو جی اپنی تو قسمت ہی پھوڑ گئی
20:24جو اس لڑکی کو شادی کے لیے لے آیا
20:25فپو جان ہستی ہوئی بیٹھک سے باہر نکل گئی
20:28ابو جان بھی قیقہ لگا کر ہنس پڑے
20:30میں نے کہا ابو جان دیکھ لی اپنی بہو کی حرکت
20:32ایک ہی دن میں فپو جان کو مجھ سے چین لیا
20:35پتہ نہیں آگے کیا کرے گی
20:36وہ بولے ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی تمہاری فپو
20:38ابو جان نے بھی فپو کی طرف داری میں دیر نہیں لگائی تھی
20:42میں نے مو بنایا یک نہ شد دو شد
20:44وہ بولے ہم تو بھائی طر سے ہوئے تھے بہو کے لیے
20:47اب اتنی پیاری بہو اللہ پاک نے جھولی میں ڈال دی ہے
20:49تو یقیناً اسی کی طرف داری کریں گے
20:51میں پلوشہ کے چھوٹے بھائی کو مخاطب ہوا
20:53عدیل خان تم سناو کب سکول جانا ہے
20:56وہ معصومیت سے بولا
20:57لالا آپ جب کہیں
20:58میں ابو جان کو اس کے سکول میں داخلے کا بتانے لگا
21:01اسی اسنام میں فپو جان کھانا گرم کر کے لیے آئیں
21:04اور ہم کھانے کو جڑ گئے
21:05کھانے کے بعد فپو جان میرے سر ہو گئیں
21:07کہ انہیں شاپنگ کے لیے شہر لے جاؤں
21:10اور میں ٹیکسی کروا کر انہیں شہر لے آیا
21:12عدیل خان کو بھی میں نے ساتھ لے لیا تھا
21:14اس طوران ہر لمحہ یہی احساس میرے ساتھ رہا
21:16کہ میں اندیکھی نگاہوں کے حسار میں ہوں
21:19اگر میرا گمان صحیح تھا
21:20تو میرے بھاگنے کی کوشش کامجاب نہیں ہو سکتی تھی
21:22میں نے وقتی طور پر ان تکلیف دے احساسات کو دور چھٹکا
21:26فپو جان نے زیادہ تر خریداری پلوشہ کے لیے کی تھی
21:29درجن بھر سوٹ
21:30جولری جوتے
21:31میک اپ کا سامان
21:32اور بھی جانے کیا کیا
21:33پلوشہ ایک ہی دن میں فپو جان کے دل پر قابض ہو گئی تھی
21:37وہ تھی ہی ایسی شوخ چنچل اور دل محل لینے والی
21:40شام کی آزان تک ہم واپس لوٹ آئے تھے
21:42پلوشہ کی فرمائش کے مطابق میں نے سونے کے کنگن بھی خرید لئے تھے
21:49چینل کو سبسکرائب کیجئے اور بیل آئیکن پر کلک کیجئے
21:51تاکہ آپ کو تمام ویڈیوز فوراں ملتی رہیں