Sniper series episode 61 a story full of thrill and suspense operation in waziristan most deadly operation in waziristan
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
Category
😹
FunTranscript
00:00اگلے دن بعد اس نماز زہر ہمارا نگاہ تھا اور شام کو رخصتی تھی
00:27شادی کی رسموں نے میرے دماغ سے اس خطرے کو وقتی طور پر مہب کر دیا تھا جس کی تلوار پچھلے دو دن سے میرے سر پر لٹک رہی تھی
00:41شادی میں میری سابقہ بیوی ماہین کے والد چچا حشمت اور اس کے دونوں بیٹے بھی شریک ہوئے تھے
00:47نکاح کے بعد انہوں نے بڑے خلوص سے مجھے مبارک بات دی
00:49ماہین کے مطالق مجھے پتا چلا تھا کہ اس کی شادی چند ماہ سے زیادہ نہیں چل سکی
00:53مہینہ بھر پہلے ہی اس نے اپنے دوسرے شہر سے تلاک لے لی تھی
00:57ان کے درمیان جھگڑے کی وجہ تو مجھے معلوم نہیں ہو پائی تھی
01:00مگر اتنا میں پہلے سے جانتا تھا کہ ایسی شادیاں کامجاب نہیں ہوا کرتی
01:04نہ ماہین جیسی لڑکیاں اچھی بیوی ثابت ہوتی ہیں اور نہ تاہر جیسے بد کردار
01:08کسی عورت کو اس کا صحیح مقام دے سکتے ہیں
01:10جن مردوں کے نزدیک عورت کی حیثیت جنسی کھلونے سے بڑھ کر نہیں ہوتی
01:14وہ عورت کا مقام کیا جانے
01:16حالانکہ شکل و صورت اور جسمانی خد و خال سے ہٹ کر بھی عورت کی ایک شناخت ہے
01:20شریک حیات کا مطلب زندگی کے ہر دکھ سکھ کو برابر بانٹنا ہے
01:24ہر عذیت کو دو حصوں میں تقسیم کرنا
01:26ہر خوشی پر یکسان حق جتانا ہوتا ہے
01:28کسی کو پسند کرنا یا چاہنا تبعی میلان کے ذریع سر ہوتا ہے
01:32لیکن انصاف کا تقاضی یہی ہے کہ شادی کے وقت
01:35ہر مرد اور عورت کو اپنی پسند کو مدنظر رکھنا چاہیے
01:38اگر گھر والوں اور خاندان کے دباؤں میں آ کر کوئی دوسری شادی کر بھی لیتے ہیں
01:42تو پھر اس رشتے کو نبھانا چاہیے
01:44کسی مرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی شریک حیات کو اس کا اصل مقام نہ دے
01:49اسی طرح کسی عورت کو بھی یہ روا نہیں کہ وہ شوہر کی امانت میں خیانت کی مرتقب ہو
01:54شادی ہو جانے کے بعد بغاوت کرنا بے غیرتی اور بے حیائی کے زمرے میں آتے ہیں
01:58اس لئے بہتر یہی ہے کہ شادی سے پہلے ہی لڑکے یا لڑکی کو اپنے بزرگوں کو اعتماد میں لینا چاہیے
02:04اسی طرح بزرگوں کا کام بھی بنتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ترجیحات کو مدنظر رکھیں
02:09ان کے پسند کو اہمیت دیں ان کے جذبات کی قدر کریں
02:12خالی بزرگی کی دھونس اور بڑے پن کا ناجائز استعمال نہ کریں
02:16بہرحال کچھ بھی تھا مجھے ماہین کی ناکام شادی کے بارے میں جان کر خوشی نہ ہوئی تھی
02:21البتہ یہ بات میرے لئے شکر کا باعث ضرور تھی کہ مجھے جلد ہی اس کی اصلیت معلوم ہو گئی تھی
02:26ورنہ تو ایسی عورتیں ساری زندگی اپنے شوہر کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہتی ہیں
02:31اور شوہر اپنی آنکھوں پر بیوی کی خدمت اور محبت کی پٹی باندھے قبر میں جاوترتا ہے
02:36نکاح کی سنت مسجد ہی میں ادا کی گئی تھی
02:38اس کے بعد تکمیل سنت میں ابو جان نے چھوارے بھی پھینکے
02:42کہ ایسے موقع پر حاضرین کی طرف چھوارے اچھالنا سنت ہیں
02:45واپسی پر ہم بیٹھک میں آ کر بیٹھ گئے
02:47مجھے رات تک کا وقت گزارنا مشکل ہو رہا تھا
02:50یوں لگ رہا تھا جیسے پلوشہ کئی سالوں سے مجھ سے دور ہو
02:53اس کے ساتھ ہی میری چھٹی حص بھی رہ رہ کر کسی انہونی کا اعلان کرنے لگتی
02:57اثر کی نماز بھی ہم نے مسجد ہی میں ادا کی تھی
03:00نماز ادا کر کے ہم دوبارہ بیٹھک میں آ گئے تھے
03:03گھر کے اندر سے عورتوں لڑکیوں اور بچوں کا شور ایک تسلسل سے سنائی دے رہا تھا
03:07ناروں کی گون سے پتہ چل رہا تھا کہ دھولک کی تھاب پر لڑکیاں جو شخروش سے رکش کر رہے ہیں
03:13مہمان آہستہ آہستہ رخصت لے کر واپس جا رہے تھے
03:16اچانک بیٹھک کے اندر دو اجنبی داخل ہوئے
03:18میں اس وقت اتفاق سے دروازے کی طرف ہی متوجہ تھا
03:22ان کی اقابی آنکھیں پر اعتماد انداز اور ہونٹوں پر کھلتی دھیمی مسکراہت مجھے لرز آ گئی تھی
03:27میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا
03:30مجھے محسوس ہوا کہ گزشتہ دو دن سے میرے اندر پلنے والے اندیشیں سچ ثابت ہونے جا رہے ہیں
03:35وہ دائیں بائیں سے بینیاز سیدھا میرے قریب آ کر بیٹھ گئے
03:37السلام علیکم زیشان بھائی کیا حال ہے
03:40قریب آتے ہی ان میں سے ایک نے کسی پرانے شناسہ کی طرح مجھے مخاطب کیا
03:44میں والیکم السلام کہہ کر کھڑا ہوا اور دونوں سے مسافہ کر کے انہیں بیٹھنے کی دعوت دی
03:49اس وقت میری چار پائی پر اویس اور ایک دوسرا دوست بیٹھا ہوا تھا
03:53انہوں نے ایک طرف ہو کر ان دونوں کو بیٹھنے کی جگہ دی
03:55اس مرتبہ دوسرا آدمی مجھ سے مخاطب ہوا
03:58شادی مبارک ہو زیشان بھائی
04:00میں نے کہا خیر مبارک شکریہ
04:02وہ بولا میرا نام خرم ہے اور یہ ارسلان ہے
04:04لیکن اتنا تو مجھے یقین تھا کہ وہ دونوں فرضی نام تھے
04:07میں نے کہا حکم کریں خرم بھائی
04:09گو میں ان کا مطمئنظر جانتا تھا لیکن پھر بھی پوچھنا ضروری تھا
04:13خرم گلہ کھنکارتا ہوا بولا
04:14اس خوشی کے موقع پر ہم کوئی اچھی خبر نہیں لائے
04:17ایک ایمرجنسی کی وجہ سے آپ کو اسی وقت یونٹ میں حاضر ہونا ہے
04:21میں اس ایمرجنسی سے واقف تھا
04:23وہ میری عزت رکھنے کے لیے مجھے باقاعدہ گرفتار نہیں کر رہے تھے
04:26اگر میں ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتا
04:28تو وہ یقیناً مجھے زبردستی لے جاتے
04:30لیکن میں اتنا احمق نہیں تھا کہ ایسی بےوقوفی کرتا
04:33البتہ نرمی سے اجازت لینے میں کوئی مزائقہ نہیں تھا
04:36میں نپے طلع الفاظ میں بولا
04:38اگر صبح تک رکنے کی اجازت مل جائے تو شکر گزار ہوں
04:41وہ بولے یقیناً ایسا ہی ہونا چاہیے تھا
04:43مگر جو احکامات ملے ہیں اس کے مطابق آپ کے پاس آدھے گھنٹے کا وقت ہے
04:47شام کی آزان سے پہلے ہم یہاں سے نکل جائیں گے
04:50اس مرتبہ بھی خورم نے ہی جواب دیا تھا
04:52شاید سینئر وہی تھا
04:53میں نے اجازت طلب کرنے کے انداز میں پوچھا
04:55ٹھیک ہے میں گھر والوں سے اجازت لے کر آتا ہوں
04:58خورم نے اعتماد بھرے انداز میں اجازت دیتے ہوئے کہا
05:01جی بھائی بتا دیا آپ کے پاس آدھا گھنٹہ ہے
05:04میرے جانے کی بات ابو جان کے پاس بھی بہنچ گئی تھی
05:06وہ فوراں قریب ہوتے ہوئے وجہ دریافت کرنے لگے
05:09میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا
05:10ابو جان کوئی ضروری کام آن پڑا ہے
05:12اس لیے بڑے افسر نے مجھے فوری بلوا لیا ہے
05:15اسی وجہ سے اس نے سرکاری گاڑی بھیجی ہے
05:17آپ فکر نہ کریں امید ہے چند دنوں تک میں لوٹ آؤں گا
05:20ابو جان ماترز ہوئے مگر ایک دو دن کے بعد بھی تو جایا جا سکتا ہے
05:24میں نے کہا ابو جان اسی کا نام فوج ہے
05:26اگر مجھے فلفور حاضر ہونے کا حکم دیا گیا ہے
05:28تو کوئی وجہ ہوگی
05:29خالی تنگ کرنا تو مقصد نہیں ہے
05:31میرے لہجے کے اتار چڑھا اور چہرے کے اثرات میں کوئی ایسی بات ضرور تھی
05:35کہ ابو جان نے اسرار نہیں کیا
05:37میں نے ایک چھوٹے لڑکے کو بھیج کر پھپو جان کو دروازے پر بلایا
05:40اور کہا کہ پردہ دار خواتین کو پردہ کرنے کا بتا دیں
05:43میں گھر کے اندر آ رہا ہوں
05:45انہوں نے حیرانی سے پوچھا کوئی ضروری کام تھا بیٹا
05:47میں نے کہا ہاں جی پلوشہ سے ملنا ہے
05:49مجھے امرجنسی میں واپس جانا پڑ رہا ہے
05:52وہ حیران رہ گئی کیا مطلب واپس جانا پڑ رہا ہے
05:54میں نے کہا پھپو جان کہتو دیا کہ امرجنسی ہے
05:57زیادہ سوال جواب کا وقت نہیں
05:58میں نے فوراں جانا ہے
05:59پھپو جان بادل نخواستہ سر جھٹکتی ہوئی اندر گھس گئی
06:03ایک دو منٹ انتظار کے بعد مجھے بھی اندر جانے کی اجازت ملی
06:06میں سیدھا دلہن کے کمرے کی طرف بڑھا
06:08پھپو جان نے وہاں موجود خواتین کو باہر نکال دیا تھا
06:11اس وقت دلہے کا دلہن کے کمرے میں جانا سب کے لیے چمبے کا باعث تھا
06:14مگر میرے پاس ان کی حیرانی دور کرنے کا وقت نہیں تھا
06:17میرے اندر داخل ہوتے ہی
06:19پلوشہ گھونگٹ اٹھاتے ہوئے اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی
06:22اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ایک لمحے کے لیے میں ساری پریشانیاں بھول گیا
06:26روایتی دلہن کا روب دھارے وہ تخت حسن پر براجمان کسی ملک کی ملکہ لگ رہی تھی
06:31راجو کیا ہوا؟ خالا جان کہہ رہی ہیں کہ آپ نے ابھی واپس جانا ہے
06:34میں نے کہا سب ٹھیک ہو جائے گا
06:36مگر اپنے لہجے میں اعتماد کا فقتان خود مجھے بری طرح کھل رہا تھا
06:40وہ تو پھر پلوشہ تھی جو میرے دل میں چھپے خیالات کو بتایا کرتی تھی
06:44وہ بولی راجو مجھے ڈر لگ رہا ہے
06:45میں نے کہا غلط فہمیا زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہ پاتی
06:49میں انشاءاللہ جلد لوٹ آؤں گا
06:51میرا خیال ہے البرٹ بروک نے میری ویڈیوز ایجنسیوں تک پہنچا دی ہیں
06:54ابھی ایجنسی کے آدمی ہی مجھے لینے آئے ہوئے ہیں
06:57لیکن فکر کی ضرورت نہیں
06:58نہ تو میں مجرم ہوں اور نہ ہماری ایجنسیاں اتنی احمق ہیں
07:01کہ دشمنوں کی چالوں کو سمجھ نہ پائیں
07:03اس نے سسکتے ہوئے کہا میں آپ کے ساتھ جاؤں گی
07:06میں نے کہا پاگل مت بنو
07:07گھر والوں کو کون تسلی دے گا
07:09اور تم اپنے سردار بھائی کو فان کر کے میری خیریت معلوم کر لینا
07:12میں اس کا فان نمبر تمہیں دے دیتا ہوں
07:14وہ مصر ہوئی راجو آپ مجھے ساتھ لے جائیں
07:16میں متعلقہ آفیسر سے بات کر کے
07:18ان کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کروں گی
07:20میں نے کہا چھوڑو اس بحث کو
07:22تم کہیں بھی نہیں جا رہی
07:23بس میرے بعد میرے ابو جان اور پھپو کا خیال رکھنا
07:26اور دیکھو میں اپنی چندہ کے لیے کتنے پیارے کنگن لائی ہوں
07:28میں نے جیب سے خوبصورت قیمتی کنگن نکال کر
07:31اس کی ریشمی کلائیوں میں پہنائے
07:33وہ بے آواز آنسو بہانے لگی
07:34میں نے کہا یقیناً تمہارے آنسو مجھے اتنی تکلیف دے رہے ہیں
07:38جتنی کسی کو عالم نظامیں ہو سکتی ہے
07:40وہ بولی راجو اگر آپ کو کچھ ہوا
07:42تو آپ کی پلوشہ زندہ نہیں رہ پائے گی
07:44میں نے کہا مجھے کچھ نہیں ہوگا
07:46وہ بولی اگر ہم دونوں بھاگ جائیں
07:47اس نے امید بھرے لہجے میں تجویز پیش کی
07:50میں نے کہا بے وکوفوں والی بات نہ کرو
07:51ایسا کر کے میں خود پر لگے الزاموں کو سچ ثابت کر دوں گا
07:55میں نے پلوشہ کو سمجھانے کی کوشش کی
07:57حالانکہ خود میرا دل یہی کر رہا تھا
07:59کہ وہاں سے بھاگ نکنوں
08:00لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت تھی
08:02کہ میں اس وقت آئی ایسای کے گھیرے میں تھا
08:04اور ان سے کوئی بائید نہیں تھا
08:05کہ اس وقت آئی ایسای کے چندرکان
08:07عورتوں کے روپ میں برکہ اوڑے
08:09اس کمرے کے گرد میرے منتظر ہوتے
08:11بھاگ کر اپنے لئے سختیاں بڑھانے سے بہتر تھا
08:13کہ میں آرام سے اپنی گرفتاری دیتا
08:15اور میں نے یہی کیا
08:16بڑی مشکل سے میں نے پلوشہ کو رازی کیا
08:19وہ بار بار رونے لگتی
08:20وہ ایک ہی رٹ لگا رہی تھی
08:21کہ اسے ڈر لگ رہا ہے
08:22گو ڈرہ ہوا تو میں بھی تھا
08:24اگر کوئی حوصلہ کی بات تھی
08:25تو وہ یہ تھی
08:26کہ میرا دامن کسی بھی قسم کی غدداری
08:28اور جرم سے پاک تھا
08:30البتہ یہ معلوم نہیں تھا
08:31کہ میری بے گناہی کتنے عرصے بعد ثابت ہوگی
08:33میں نے تو اس یہ منصوبہ بنایا ہوا تھا
08:35کہ پلوشہ کو گھر میں پہنچا کر
08:37اپنی بے گناہی کے ثبوت ڈھونڈنے جاتا
08:39مگر اس سے پہلے ہی یہ مصیبت ٹوٹ پڑی
08:42پلوشہ سے الویتائی ملقات کر کے
08:43میں نے اسے سردار کا موبائل نمبر لکھ کر دیا
08:45اور کمرے سے باہر نکل آیا
08:47پھوپو جان میری منتظر تھی
08:48انہیں جلدی لوٹ آنے کا کہہ کر
08:50میں گھر سے نکل گیا
08:51بیٹھک میں ابو جان اور چند دوسرے احباب سے
08:54ہشاش بشاش انداز میں ملتے ہوئے
08:55میں خرم اور ارسلان کے پاس آ گیا
08:57چلیں بھائی
08:58سخت پریشان ہونے کے باوجود
09:00میں نے بظاہر مزاہیہ انداز اپنایا ہوا تھا
09:02تاکہ کسی کو میری پریشانی کے بارے میں معلوم نہ ہو
09:04وہ دونوں اسبات میں سر ہلاتے ہوئے میرے ساتھ چل پڑے
09:07ہمارے دروازے پر ہی ایک کالے شیشوں والی
09:10ڈبل کیبن کھڑی تھی
09:10جس کی باڈی میں تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے
09:13میں خرم اور ارسلان کے درمیان
09:15اقمی نشست پر بیٹھ گیا
09:16اگلی سیٹ پر پہلے ہی سے دو آدمی موجود تھے
09:19ہمارے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی موڑی
09:21اور ہم گاؤں سے باہر کی طرف چل پڑے
09:23بڑی سڑک پر آتے ہی ارسلان نامی آدمی نے
09:25جیب سے کالے رنگ کا کپڑا نکالا
09:27اور میرے سر پر چڑھا دیا
09:28اب اردگرد کے سارے مناظر اندھیرے میں ڈوب گئے تھے
09:32گاڑی کافی دیر چلتی رہی
09:34اس دوران کسی نے بھی بات چیت نہیں کی تھی
09:36میں بھی خاموش بیٹھا آنے والے لمحات پر سوچ رہا تھا
09:39میں جانتا تھا کہ ایجنسی والے ملک دشمنوں کے لیے
09:42کیسے جلاد کے روپ میں ہوتے ہیں
09:44گو میں ملک دشمن نہیں تھا لیکن میرے خلاف جو ثبوت موجود تھے
09:47وہ مجھے ملک دشمن ثابت کرتے تھے
09:49اور میرا بے گناہ ہونا میرے کہنے سے تو ثابت نہیں ہو رہا تھا
09:52ایجنسی کا اپنا طریقہ کار تھا
09:54اب نہ جانے انہوں نے کس طریقے سے میری بے گناہی کا یقین کرنا تھا
09:57ہمارا سفر چند گھنٹے جاری رہا
10:00اس دوران گاڑی نے کئی موڑ کاٹے تھے
10:01میرا اندازہ یہی تھا کہ ہم راولپنڈی شہر میں داخل ہوئے تھے
10:05لیکن یقین سے کچھ کہنا مشکل تھا
10:07ٹرافک اور لوگوں کے ملے جلے شور سے
10:09کسی شہر کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل تھا
10:11گاڑی کے رکنے پر بھی انہوں نے میرے سر پر سے کپڑا نہ اتارا
10:14میرے دائیں جانب ارسلان بیٹھا ہوا تھا
10:16اسی نے مجھے بازو سے پکڑ کر گاڑی سے نیچے اتارا
10:19اور ایک جانب آگے بڑھا دیا
10:20اس کے ساتھ چلتے ہوئے میں نے تین چار موڑ کاٹے
10:23دو بار سیڑھیاں اتریں اور پھر میرے سفر کا اختتام ہو گیا
10:26میرے سر سے کپڑا اتارا گیا
10:28وہ ہر قسم کے سامان سے آری کمرہ تھا
10:31بس ایک کونے میں لکڑی کا تخت نصب تھا
10:33جو زمین سے فٹ بھر انجا تھا
10:35اس پر ایک کمبل بچھا تھا
10:36اور سفید رنگ کا تکیا پڑا ہوا تھا
10:39میں نے سرسری نظر دوڑا کر کمرے کا جائزہ لیا
10:41میرے ساتھ وہاں تک اکیلا ارسلان ہی آیا تھا
10:44میری جامہ تلاشی لے کر
10:45اس نے میری جیبوں سے تمام چیزیں نکال کر
10:47ایک مومی لفافے میں ڈالی اور خاموشی سے باہر نکل گیا
10:50جاتے ہوئے وہ لوہے کا
10:51مضبوط دروازہ بند کر گیا تھا
10:53یقینا ان کی ذمہ داری مجھے وہاں تک لانے کی ہی تھی
10:56پچھ گچھ کے لیے کسی اور نے آنا تھا
10:58میں لکڑی کے پھٹے پر لیٹ گیا
10:59میری قسمت میں انتظار ہی لکھا تھا
11:01تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی میرے لیے کھانا لے کر آیا
11:04وہ اکیلا تھا اور بغیر کسی ہتھیار کے تھا
11:06کمرے میں کوئی میز تو موجود نہیں تھا
11:08اس نے کھانے کی ٹریے میرے سامنے بستر پر رکھی
11:11اور کچھ کہے بنا باہر نکل گیا
11:12بھوک نہ ہونے کے باوجود میں نے چند نوالے
11:15زہر مار کیے اور غسل خانے میں
11:16گھس کر وضو کرنے لگا شام کی نماز
11:19سفر کی نظر ہو گئی تھی شام کی
11:20قضہ نماز پڑھ کر میں نے عشاء کی نماز
11:22ادا کی اور سونے کے لیے لیٹ گیا
11:24کافی دیر کروٹیں بدلنے کے بعد ہی
11:26میں سونے میں کامجاب ہو سکا تھا
11:28دیر سے سونے کے باوجود صبح جلدی میرے یانک
11:30کھل گئی تھی گھڑی کی غیر موجود کی
11:32میں میں وقت کا اندازہ تو نہ کر سکا
11:42دروازہ کھول کر ایک آدمی پلاسٹک کی
11:44کرسی اٹھائے ہوئے اندر داخل ہوا
11:46کرسی اس نے میرے چارپائی کے سامنے رکھی
11:48اور ناشتے کے خالی برتن اٹھا کر
11:50باہر نکل گیا اس کے باہر جانے کے چند
11:52لمحے بعد قدموں کی آہٹ ہوئی آنے والی
11:55شخصیت کو دیکھ کر میں حیرانی سے اچھل
11:57پڑا وہ میجر اورنگزیب تھے
11:58میں بے اختیار کھڑا ہو گیا بیٹھو
12:00کرسی پر نشست سنبھالتے ہوئے وہ
12:02سنجیدہ لہجے میں بولا اس کے چہرے پر
12:04شناسائی کی ہلکی سی بھی رمک نہیں تھی
12:06میں آہستگی سے بیٹھ گیا
12:08چند لمحے مجھے گھورنے کے بعد وہ بغیر
12:10کسی تمہیدی جملے کے براہ راست
12:12مطلب کی بات پر آ گیا تو ایسا
12:14کرنے کی وجہ کیا تھی اپنی محبوبہ
12:16کی جان بچانا ڈالرز یا گرین
12:18کارڈ کا حصول میں نپے تلے
12:20الفاظ میں بولا ایسا کچھ بھی نہیں ہے سر
12:22اصل کہانی کوئی اور ہے وہ بولا
12:24تو پھر شروع ہو جاؤ مجھے معلوم نہیں تھا
12:26کہ سردار نے میرے جانے کے بارے میں
12:28انہی کیا بتایا تھا لیکن میں اس وقت
12:30سچ کے علاوہ کچھ بول نہیں سکتا تھا
12:32کیونکہ میرے بیان کا ہلکا ست ازاد
12:34میری مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا
12:36لمحہ بھر سوچ کر میں نے اپنے دماغ میں
12:38واقعات کو ترتیب دی اور پھر
12:40اس وقت سے بات شروع کی جب سردار خان
12:41اور میں نے وچہ نرائے جانا تھا
12:43پلوشہ کا اپنی ماں اور بھائی کی وجہ سے
12:45مجھے پکڑوانا
12:46میرا البرٹ بروک کے ہاتھوں دھوکہ کھانا
12:49ویڈیو کلپس کی حقیقت
12:50پلوشہ کا مجھے بچانے کے لیے لوٹنا
12:52سنوبر خان کی موت اور میری گھر واپسی تک
12:54میں نے تمام ضروری باتیں اور انگزیب صاحب کے
12:57گوش گزار کر دی
12:58اس دوران اس نے مجھے ٹوکنے یا کسی قسم کے
13:00سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی
13:02میری بات ختم ہوتے ہی وہ کہنے لگا
13:04تم نے رہا ہوتے ہی ڈی بلوک میں رابطہ کرنے کی
13:07کوشش کیوں نہیں کی تھی
13:08یا میں نے تمہیں الفا ٹو یعنی سبیل خان سے
13:10رابطہ کرنے کا کہا تھا
13:12اسے بھی تم نے اپنی رہائی کے بارے میں نہیں بتایا تھا
13:14میں نے کہا کیوں کہ میں اپنی رہائی کے ثبوت
13:16حاصل کر کے ہی آپ سے رابطہ کرنا چاہتا تھا
13:19وہ بولے جانتے ہو ہمارے ذرائع نے یہ بتایا ہے
13:21کہ تم نے سنوبر خان کو اپنے امریکی آقاوں کے
13:32خبیز شخص تھا
13:33سنوبر خان کا قتل جس کی بدولت
13:35مجھ پر غداری کا الزام ہو سکتا تھا
13:37وہ اسے بھی میری مخالفت میں استعمال کر چکا تھا
13:40میں نے کہا سر امریکن میری نشانے بازی
13:42استعمال کرنا چاہتے تھے
13:44اگر انہوں نے میرے ہاتھوں سے سنوبر خان کو مروانا ہوتا
13:46تو میں نے سنائپر سے اسے ختم کیا ہوتا
13:48جبکہ آپ جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے برقس ہیں
13:51اسے پلوشہ اور میں نے اس وجہ سے قتل کیا
13:53کہ اس نے پلوشہ کو بلیک میل کرنے کے لیے
13:56اس کی ماں اور بھائی کو
13:57حب سے بے جامع رکھا
13:59پلوشہ کو تشدد کا نشانہ بنایا
14:01اور سب سے بڑھ کر کہ وہ دہشتگر تھا
14:03اور اسے ختم کرنے کا حکم مجھے پہلے سے مل چکا تھا
14:05وہ بولا اسے ختم کرنے کا باقاعدہ حکم
14:08تمہیں کس سے ملا تھا
14:09میں نے کہا آپ سے
14:10وہ بولے میں نے کب کہا کہ سنوبر خان کو قتل کرو
14:12میں نے کہا جب قبیل خان کو قتل کرنے کا حکم آپ دے سکتے ہیں
14:16تو اس کے جانشین جہانداد کے قتل پر مجھے شاباش دے سکتے ہیں
14:19تو سنوبر خان بھی اسی کردار کا مالک تھا
14:21وہ بولا ہوگا
14:22لیکن باقاعدہ حکم نہیں دیا گیا تھا
14:24تمہیں آخری حکم وچہ نرائے پہنچنے کا ملا تھا
14:27جس پر تم نے عمل نہیں کیا
14:28اور ایک لڑکی کی خاطر اپنے فرض سے غافل ہو گئے
14:31تمہارا کوٹ مارشل ہونے کے لیے اتنی وجہ کافی ہے
14:34لیکن تم نے صرف اپنے فرض سے غفلت نہیں بڑھتی
14:36بلکہ تم پر غداری کا الزام لگا ہوا ہے
14:38جس کے ٹھو ثبوت اور شواہد موجود ہیں
14:40تم نے پاک آرمی کے کئی جوانوں اور آفیسرز کو شہید کرنے کا اطراف کیا ہے
14:44اور اس کے لیے رقم وصول کی ہے
14:46اب تمہارا یہ کہنا کہ وہ فقط ایک ڈراما تھا
14:49تو یہ بات کوئی نہیں مانے گا
14:50میں نے کہا سر یہ میرے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہے
14:53امریکہ میں کورس کے دوران بھی انہوں نے مجھے ورغلانے کی کوشش کی تھی
14:57اور پھر مجھے اپنے دوست سردار کے خاطر ان کا کام کرنا پڑا
15:00میں نے اسے امریکہ والی ساری بات سنا دی
15:02وہ بولا یہ ساری بات سردار مجھے بتا چکا ہے
15:04اور یہ بات تمہارے کردار کو اور مشکوک کر رہے ہیں
15:07کرنل کالن فیلڈ نے تم سے پہلی ملاقات میں اسی بات کا حوالہ دیا ہے
15:11کہ البرٹ بروک امریکہ ہی سے تمہیں اپنے لیے کام کرنے پر مائل کر چکا تھا
15:16اور تم نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر کچھ محلت طلب کی تھی
15:19اسی طرح سردار خان کے بقول وہاں امریکہ میں بھی تم اکیلے ہی ان سے ملاقاتیں بھی کرتے تھے
15:24اور ان کے لیے کام بھی کرتے رہے ہو
15:26سردار کو وہی معلوم ہے جو اس نے تمہاری زبان سے سنا ہے
15:29باقی واپسی پر تمہارے اکاؤنٹ میں کافی بھاری رقم بھی جمع کی گئی
15:33ایک سپاہی کے لیے پچاس ہزار ڈالر کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی
15:37میں نے کہا وہ رقم مجھے سنائپر کورس میں پہلی پوزیشن لینے پر بطور انعام ملی تھی
15:41وہ بولا کسی کورس میں اول پوزیشن لینے پر اتنی رقم نہیں ملا کرتی
15:45میں نے کہا یوں ہی سہی مگر آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں نے وہاں ایک یہودی کو بھی قتل کیا تھا
15:50شاید وہ رقم اس کا انعام ہو
15:51بہرحال میرے حوالے وہ سنائپر کورس میں اول پوزیشن حاصل کرنے کا انعام بتا کر کی گئی تھی
15:57وہ بولا تم نے واپسی پر اپنی یونٹ کے کماننگ آفیسر کو امریکہ میں ہونے والے حادثے کی اطلاع کیوں نہیں دی تھی
16:03میں نے کہا کیونکہ میرے تائیں وہ ایک حادثہ تھا جس سے ہم دونوں بخیریت گزر چکے تھے
16:08اس کے ساتھ مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ شاید میرا امریکیوں کے لیے کام کرنے والا فیصلہ غلط ہو
16:12اور کماننگ آفیسر اس پر کوئی سزا دیں
16:15وہ بولا سردار اور تم نے ایک اور غلط کام یہ کیا کہ پاکستان آرمی سے تعلق رکھنے کے باوجود
16:20دہشتگردوں سے چھینے ہوئے ہتھیار مجاہدین کے حوالے کرتے رہے ہو
16:24جو پاکستان آرمی کی پالیسی کے سخت خلاف ہیں
16:27اس معاملے میں آرمی کا موقف بالکل واضح ہے
16:30پاک آرمی کسی دوسرے ملک کے خلاف کام کرنے والے کسی فرد کی مدد کرنے کے حق میں نہیں
16:35نہ کشمیر میں کام کرنے والے مجاہدوں کو آرمی کوئی مدد دیتی ہے
16:38اور نہ افغانستان کے محاذ پر امریکہ یا شمالی اتحاد کے خلاف مجاہدین کی مدد کرتی ہے
16:44اور تم نے آرمی سے تعلق رکھنے کے باوجود ایسی حرکت کیوں کی
16:47میں نے کہا سر ایک تو ہم سر چھپانے کے لیے مجاہدین کے ٹھکانے استعمال کر رہے تھے
16:52اور دوسرا یہ ہمارا ذاتی فیل تھا
16:54اس زمن میں ہم نے نہ تو پاک آرمی کا حوالہ دیا
16:56اور نہ مجاہدین نے ہمیں پاک آرمی کا سمجھتے ہوئے
16:59ہم سے یہ ہتھیار وصول کیے
17:01البتہ ہمارے اس فیل سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے
17:03کہ ہم امریکہ کے مفاد میں نہیں
17:05بلکہ اس کے خلاف کام کر رہے تھے
17:07وہ بولا دیکھو زیشان
17:08یہ بات تمہارے حق میں بالکل نہیں جاتی
17:10کیونکہ جو آدمی وطن سے غداری کر سکتا ہے
17:13وہ کسی کے لیے بھی مخلص نہیں ہو سکتا
17:15ایسا شخص دوغلا ہوتا ہے
17:16اور اپنے مفاد کے لیے کسی کام میں آر محسوس نہیں کرتا
17:19تمہارے اس فیل سے تمہاری غداری اور بھی واضح ہوتی ہے
17:22البتہ سردار خان کو اس معاملے میں بے قصور مانا جا سکتا ہے
17:25کہ سینئر ہونے کے باوجود وہ تمہارے احکامات کے ہی تابع تھا
17:29اس مرتبہ میں اس کی بات کا جواب دینی کی بجائے خاموشی اختیار کیا
17:32اتنے ثبوتوں کے جواب میں میرے پاس لے دے کر
17:35اپنا ناقص حوالہ تھا
17:37اور اپنے بارے میں اپنی ہی گواہی دنیا کی کوئی عدالت تسلیم نہیں کرتی
17:41مجھے خاموش پا کر اس نے ایک مرتبہ پھر زبان کھولی
17:43تمہارے پاس سوچنے کے لیے ایک ہفتہ ہے
17:45کیونکہ تم سے پچھ گچھ کے لیے مجھے ایک ہفتے کی محلت ملی ہے
17:48اگر اس دوران تم اپنے جرم کا اطراف کر لیتے ہو تو ٹھیک
17:51ورنہ اس کے بعد تمہیں سپیشل برانچ کے حوالے کر دیا جائے گا
17:54اور بات میرے ہاتھوں سے نکل جائے گی
17:56میں نے دو ٹوک لہجے میں کہا
17:58جو حقیقت تھی وہ میں نے بتا دی ہے سر
18:00وہ بولا صرف تمہارا کہہ دینا کافی نہیں
18:02کوئی ثبوت ہے تو پیش کرو
18:04میں نے کہا ثبوت کے لیے میری گزشتہ کارکردگی کے علاوہ کچھ نہیں
18:07اس نے کہا ایک آخری سوال
18:09تم نے شروع دنوں میں دعویٰ کیا تھا
18:11کہ ایک امریکن سنائپر تمہاری گولی کا نشانہ بنا ہے
18:13جس سے تمہارے ہاتھ بیرٹ ایم ونزیرو سیون
18:16گلوک پسٹل
18:17ایک قیمتی گھڑی
18:18اور بھی کافی چیزیں ہاتھ لگی تھی
18:19اتنا کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا
18:22اور پھر اپنی بات مکمل کرتے ہوئے بولا
18:24کیا وہ سامان واقعی میں کسی سنائپر کو ہلاک کرنے کے بعد
18:26تمہارے ہاتھ لگا تھا
18:27یا امریکیوں نے اپنے ایجنٹ کے حوالے
18:30ضرورت کا سامان بھیجا تھا
18:31میرے چہرے پر بھیکی مسکراہت ظاہر ہوئی
18:33میں نے کہا اس کا گواہ تو سردار خان کی صورت میں موجود ہے
18:37میجر اورنگزیب نے نفی میں سر ہلایا نہیں
18:39سردار خان کے کہنے کے مطابق
18:41جب تم نے مخالف پہاڑی پر موجود سنائپر کو ہلاک کیا تھا
18:44تو باعصرار تم اس پہاڑی کی طرف اکیلے گئے تھے
18:47اور وہاں سے لوٹتے وقت
18:48تمہارے پاس وہ تمام سامان موجود تھا
18:50عجیب اتفاق تھا کہ میرے مخلص دوست کی بتائے ہوئی
18:53صحیح باتیں بھی میرے خلاف غداری کے الزام کو تقویت دے رہی تھی
18:57میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں بے گناہ ہوں
18:59میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتا
19:01وہ بولا دوبارہ بتا دوں کہ میرے پاس ایک ہفتے کا وقت ہے
19:04آخری دن آؤں گا
19:05اگر کچھ کہنا ہوا تو ٹھیک
19:07ورنہ میں تمہیں متعلقہ لوگوں کے حوالے کر دوں گا
19:09یہ کہتے ہوئے وہ کھڑا ہوا
19:11اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو طلب کر لینا
19:13میں بھی اس کے احترام میں بستر سے اٹھتے ہوئے بولا
19:16سردار خان سے ملاقات ہو سکتی ہیں
19:17وہ بولا اس تک تمہارا پیغام پہنچا دیا جائے گا
19:20یہ کہہ کر آرنگزیب صاحب وہاں سے نکل گیا
19:23چینل کو سبسکرائب کیجئے اور بیل آئیکن پر کلک کیجئے
19:29تاکہ آپ کو تمام ویڈیوز فوراں ملتی رہیں