Sniper series episode 71 a story full of thrill and suspense operation in waziristan most deadly operation in waziristan
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
Category
😹
FunTranscript
00:00ایک پاکستانی سنائپر
00:30اور صورتحال کا اچھی طرح ادراک ہوتا ہے
00:32مگر اس وقت میں نیند سے نہیں جا گا تھا
00:34بلکہ طویل بے ہوشی سے اٹھا تھا
00:36آہستہ آہستہ میرا شعور بیدار ہوا
00:38اور مجھے یاد آیا کہ میں کہاں ہوں
00:40مجھے حیرانی اس بات پر تھی کہ ابھی تک میں زندہ کیسے ہوں
00:42شلوبر قبیلے کے آدمیوں کو
00:44تو مجھے بغیر کسی تاخیر کے حلاق کر دینا چاہیے تھا
00:47مگر میں نہ صرف زندہ تھا
00:48بلکہ ٹانگ پنڈلی اور بازو پر بندھی ہوئی
00:51سفید پٹیاں بھی مجھے یہ باور کروا رہی تھی
00:53کہ بے ہوشی کے دوران ہی میرا آپریشن وغیرہ ہو چکا تھا
00:56میں نے دائیں بائیں نظریں گھمائی
00:58وہ جگہ مجھے کسی غار کی طرح لگی
01:00کیونکہ کمرے کی دیواریں اتنی کھردری اور بے ترتیب نہیں ہو سکتی تھی
01:03میں فرش پر بچھے ایک نرم گدے پر لیٹا ہوا تھا
01:06سرحانے کی طرف دیوار میں گڑی کیل کے ساتھ ایک ڈرپ لٹکی تھی
01:10جس کا ایک سرہ سوئی کے ساتھ میری کلائی میں جڑا ہوا تھا
01:13میرے پاؤں کی طرف ایک بیٹری پڑی تھی جس سے منسلک تار چھت میں لگی
01:17ایک ڈی سی بلب کو روشن کیے ہوئے تھی
01:19دروازے کی جگہ ایک کالے رنگ کا کمبل لٹکا ہوا نظر آ رہا تھا
01:22اب یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے اقب میں دروازہ موجود بھی تھا یا نہیں
01:26اندر چلنے والے بلب کی وجہ سے رات دن کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہو رہا تھا
01:31نا جانے بے ہوشی کے دوران کتنا وقت گزر گیا تھا
01:33میری کلائی پر بندی ہوئی گھڑی غائب تھی
01:35اسی طرح میرا لباس بھی تبدیل کر دیا گیا تھا
01:37جس طرح میری دیکھ بھال کی گئی تھی میرے ساتھ ایسا برتاؤ شلوبر قبیلے والے تو کسی صورت نہیں کر سکتے تھے
01:43میں ذہنی ورزش میں مشغول ہو گیا
01:45لیکن کافی دیر اندھیرے میں ٹامک تویاں مارنے کے بعد میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا تھا
01:49اور پھر میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ پردہ ہٹا کر کوئی اندر داخل ہوا
01:53آنے والے کے چہرے پر نظر پڑتے ہی میرا دل خوشکوار انداز میں دھڑکنے لگا
01:57وہ کمانڈر عبدالحق تھا
01:59اسی کی وجہ سے میرا تعرف پہلی بار مجاہدین سے ہوا تھا
02:02اور اس کے بعد مجاہدین میرے کافی کام آئے تھے
02:05محبت بھرے انداز میں کہتے ہوئے آپ کو ہوش آ گیا ہے
02:08وہ میرے قریب بیٹھ گیا
02:09میں مسکر آیا ہوش تو آ گیا ہے مگر سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا
02:12وہ بولا جن مسلح آدمیوں کو دیکھ کر آپ بھاگنے کی ناکام کوشش میں بے ہوش ہوئے تھے
02:17وہ آپ کے دشمن نہیں تھے مجاہدین تھے
02:19میں نے سمجھ جانے والے انداز میں سر ہلایا
02:21اس کا مطلب ہے میرا بے ہوش ہو جانا فائدہ مند رہا
02:24ورنہ میں نے مقابلے سے باز نہیں آنا تھا
02:26کمانڈر عبدالحق نے قہقہ لگایا
02:28یقینا ہمارے مجاہدین کے چند سانس بقایا تھے
02:31میں خفیف ہوتا ہوا بولا خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں
02:34وہ بولا کسر نفسی ہے آپ کی
02:35ورنہ وہاں کافی لاشیں بکری ہوئی نظر آئی ہیں
02:38اور تمام کے سر میں گولی لگی تھی
02:39یہ کہتے ہوئے اس نے پوچھا
02:41ویسے آپ کسی افغانی قبیلے سے کیسے ٹکرا گئے
02:43یہ لوگ تو پاک آرمی کے دشمن نہیں ہیں
02:45میں نے کہا لمبی کہانی ہے
02:46وہ مسکر آیا ایسی حالت میں
02:48کہانیاں سنانے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی کام نہیں بچتا
02:51میں نے کہا پہلے آپ یہ بتائیں
02:52کہ مجاہدین وہاں کیسے آگئے
02:54اور انہوں نے مجھے پہچانا کیسے
02:56وہ بولے پہچانا کہاں ہے
02:57وہاں آپ اکیلے ہی زندہ بچے تھے
02:59اس لیے آپ کو لے آئے
03:00یہاں خوش قسمتی سے میں خود موجود تھا
03:03بس سب سے پہلے تو آپ کو تبیم داد دی
03:05ٹانگ میں فسی گولی نکالی
03:06مرہم پٹی کی اور پھر کمزوری کی وجہ سے
03:09ٹرپ لگا دی
03:09یہ پانچویں ٹرپ ختم ہوئی ہے
03:11یہ کہتے ہوئے اس نے میری کلائی سے
03:12سوئی نکال کر وہاں رکھ کر دبا دی
03:14میں نے کہا گویا مجھے بےہوش ہوئے دوسرا دن ہے
03:17وہ بولے کل شام کو آپ کو یہاں لائے گیا تھا
03:20اور ابھی رات کے بارہ بجنے کو ہیں
03:21میں نے پوچھا آپ سوئے نہیں
03:23وہ بولے ٹرپ ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا
03:25میں نے پوچھا یہ جگہ غار کی طرح لگ رہی ہے
03:27وہ بولے یہ غار ہی ہے
03:29جس جگہ آپ کا دشمنوں سے مقابلہ ہوا ہے
03:31اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہمارا یہ ٹھکانہ موجود ہے
03:34میں نے کہا جانی بے دھیانی میں صحیح سمت اختیار کی رکھی
03:38اس نے اس بات میں سر ہلایا ہاں
03:39اور اب آپ تفصیل بھی بتا دیں
03:41کہ یہ لوگ کیوں آپ کے پیچھے پڑے تھے
03:43جواباً میں نے غزنی خیل اور شلوبر کی آپس کی لڑائی میں
03:46اپنی غلطی سے پھنس جانے کے متعلق بتانے لگا
03:48ساری تفصیل سنتے ہی اس نے پوچھا
03:50آپ نے افغانستان آنے کی وجہ نہیں بتائی
03:53اس مرتبہ میں نے البرٹ بروک کے ہاتھوں بلیک میل ہونے
03:56اور اپنی بے گناہی کے ثبوت ٹھونڈنے کے متعلق
03:58ضروری تفصیلات دہرا دی
03:59پلوشہ کے ساتھ میری شادی کی خبر سن کر وہ خوش ہو گیا تھا
04:03وہ بولے سب سے پہلے تو شادی کی مبارک ہو
04:05میں نے کہا خیر مبارک بھائی
04:06مگر اب نہ جانے وہ کس حال میں ہوگی
04:09میں افسردہ ہو گیا
04:10وہ بولے پلو خان کسی سے مار کھانے والا نہیں
04:12وہ میرا بڑا لارڈلا شاگر تھا
04:14تمام استادوں سے میں نے اس کی تعریف ہی سنی ہے
04:16ایک مشن میں تو وہ میرے ساتھ بھی کام کر چکا ہے
04:19یقین مانو دل خوش ہو جاتا ہے
04:20اس کی کارکردگی دیکھ کر
04:22میں نے کہا ہاں مگر اس وقت وہ پلو خان تھی
04:24ابھی پلوشہ ہے
04:25وہ بے تکلفی سے بولا نام کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہوتا
04:28ایک جوان لڑکی کو دشمنوں کے حدے چڑھنے کے بعد
04:31کیا مشکلات درپیش آسکتی ہیں
04:32اس بارے میں یقیناً آپ مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے
04:35اس نے اس بات میں سر ہلایا یہ تو صحیح ہے
04:37مگر آپ خامخہ برے گمان نہ پالیں
04:39اللہ پاک بہتر کرے گا
04:41میں نے امید ظاہر کی
04:42ایک اسی کی ذات کا سہارہ ہے
04:44وہ بولے تو اب آپ غزنی جائیں گے
04:46میں نے کہا ارادہ تو یہی ہے
04:47وہ بولے آپ کے زخم ٹھیک ہوتے کچھ وقت تو لگے گا
04:58وہ بولا ساتھی وہاں پڑے سارے ہتھیار ہی سمیٹ لائے تھے
05:02اور ان میں موجود کمانڈر نصر اللہ خیل کی خاص کلیشنکوف پہچاننے میں
05:06مجھے ذرا بھی دقت نہیں ہوئی تھی
05:08میں نے تحسین آمیز لہجے میں کہا
05:09بڑی تیز نظر ہے آپ کی
05:11بولے وہ میرے استاد ہیں
05:12اور میں نے ان کے ہمراہ انگنت مارکوں میں حصہ لیا ہے
05:15ان کی کلیشنکوف اس لیے بھی خصوصی ہے
05:17کہ انہوں نے اعلان کیا تھا
05:18کہ یہ کلیشنکوف وہ ایسے شخص کو توفہ دیں گے
05:21جو ان کی نظر میں اس کا صحیح حق دار ہوگا
05:24اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے ایسا آدمی تلاش کرنے میں کوئی غلط ہی نہیں کی
05:27میں مزاہی انداز میں بولا
05:29یقیناً آپ مزاک اچھا کر لیتے ہیں
05:31وہ بولے اچھا آپ سچ سچ بتائیں
05:32کہ استاد محترم نے یہ کلیشنکوف آپ کے حوالے کرتے ہوئے کیا فرمایا تھا
05:36مجھے کمانڈر نصر اللہ کی باتیں اچھی طرح یاد تھی
05:39انہوں نے بھی کمانڈر عبدالحق سے ملتی جلتی باتیں کی تھی
05:42یوں بھی مجاہدین کے درمیان میری نشان بازی کا کافی چرچہ تھا
05:45اور اس کی وجہ یہی تھی کہ کچھ تو مجھے قدرتی طور پر نشان بازی کی صلاحیت تھی
05:49اور کچھ یار لوگوں کی مبالغہ آرائی نے مجھے شہرت دی تھی
05:53میں جب آپ سے پہلو تو ہی کرتے ہوئے بے پروائی سے بولا
05:56یہ بات کا مسئلہ ہے فی الحال تو مجھے بھوک لگی ہے
05:58وہ بولے اوہ مجھے خیال ہی نہیں رہا
06:00میں آپ کے لیے کچھ کھانے گولاتا ہوں
06:02اور وہ غار سے باہر نکل گئے
06:03افغانستان کے مختلف پہاڑوں میں مجاہدین نے ٹھکانے بنا رکھے ہیں
06:07وہ بھی مجاہدین کا ایک محفوظ ٹھکانہ تھا
06:10اور میری خوش نصیبی کے جس جگہ میرا شلوبر قبیلے سے آخری ٹاکرا ہوا
06:13یہ ٹھکانہ وہاں سے قریب ہی تھا
06:15اس کی حیثیت رستے میں آنے والی ایک چوکی کیسی تھی
06:18کہ پاکستانی سرحد عبور کرنے والے مجاہدین
06:21وہاں ایک دن گزار کر آگے بڑھ جاتے تھے
06:23وہاں مجاہدین کی محدود تعداد ہی رہتی تھی
06:25اس کے باوجود اس ٹھکانے کے دائیں بائیں ہونے والی
06:28کسی بھی کاروائی کو وہ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے
06:31اس دن بھی جب میرا شلوبروں سے فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا
06:35انہیں بھی وہ فائرنگ سنائی دے گئی تھی
06:37وہاں کمانڈر عبدالحق ہی امیر تھے
06:39انہوں نے چار آدمی صورتحال کا جائزہ لینے بھیجے
06:42اور ان چاروں کو زندہ حالت میں صرف میں ہی ملا تھا
06:44اس لیے وہ مجھے اٹھا لائے
06:46کمانڈر عبدالحق نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا
06:49میری ٹانگ کا آپریشن انہوں نے خود ہی کیا تھا
06:51کچھ بے ہوشی کے ٹیکے اور کچھ کمزوری کی وجہ سے
06:54مجھے انتیس تیز گھنٹوں بعد ہی ہوش آ سکا تھا
06:56میرے ہوش میں آنے کے اگلے دن
06:58شلوبر قبیلے کا ایک وفد وہاں پہنچ گیا تھا
07:01اپنی لاشیں وہ ایک دن پہلے ہی اٹھا کر لے گئے تھے
07:03لیکن اب ان کی آمد کا مقصد
07:05اپنے ہتھیاروں کی واپسی اور مجھے تحویل میں لینا تھا
07:08کمانڈر عبدالحق کو ساری تفصیل معلوم تھی
07:10ان کے ہتھیار واپس کرتے ہوئے کمانڈر عبدالحق نے
07:13الٹا انہیں متون کیا
07:14کہ ان کی وجہ سے ایک مجاہد زخمی ہوا ہے
07:16چونکہ اس ساری کاروائی میں شلوبر قبیلے کی غلطی زیادہ تھی
07:20اس لیے جلد ہی انہیں مجھے تحویل میں لینے کے مطالبے سے دستبردار ہونا پڑا
07:24میرا غزنی خیل قبیلے کا ساتھ دینا اپنی جان بچانے کی وجہ سے تھا
07:27اور جب تک شلوبروں نے مجھے مجبور نہیں کیا
07:30تب تک میں نے ان کے کسی آدمی کو جان سے بھی نہیں مارا تھا
07:33البتہ آخری مارکے میں مجبور ہو کر
07:35مجھے انتہائی اقدام اٹھانا پڑا تھا
07:37اسی بات کو کمانڈر عبدالحق نے نہائیت وضاحت سے انہیں سمجھا دیا
07:40کہ اگر میں چاہتا تو جتنے آدمی زخمی کیے تھے ان تمام کو جان سے مار سکتا تھا
07:45اور یہ بات تو انہیں بھی تسلیم تھی کہ میری فائر کی ہوئی گولیوں سے
07:48ان کا کوئی بھی آدمی جان سے نہیں گیا تھا
07:50سوائے ان سات آدمیوں کے جنہیں مارنا میرے لیے ناگزیر ہو گیا تھا
07:54شلوبروں کو اس لیے بھی خاموش ہونا پڑا تھا
07:56کہ کسی قبیلے سے تو وہ دشمنی پال سکتے تھے
07:59مجاہدین کے لشکر کے ساتھ ٹکر لینا ان کے لیے ممکن نہیں تھا
08:02اس کے ساتھ غزنی خیل قبیلے سے بھی ان کی لڑائی اروج پر تھی
08:06اس لیے یہ محاذ انہیں بند کرنا ہی مناسب لگا
08:09اور ہتھیاروں کی واپسی ہی کو غنیمت سمجھتے ہوئے وہ واپس چلے گئے تھے
08:13ان کے جانے کے بعد کمانڈر عبدالحق نے مجھے ساری تفصیل سنائی
08:17ایک خامخہ کی مصیبت سے جان چھوٹنے کا سن کر میں نے سکھ کا سانس بھرا
08:21ان سے کوئی بائید نہیں تھا کہ کبھی دوبارہ میرے سامنے آنے پر میری جان کے درپیہ ہو جاتے
08:26اب کمانڈر عبدالحق کے سمجھانے کی وجہ سے یقیناً میرے خلاف کاروائی کرنے سے پہلے وہ سو بار سوچتے
08:32کمانڈر عبدالحق کی بات ختم ہوتے ہی میں نے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا
08:35ویسے آپ نے جھوٹ کیوں بولا کہ میں آپ کا ساتھی ہوں اور مجاہد ہوں
08:39وہ سنجیدہ لہجے میں بولے آپ کے مجاہد ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں پھر یہ جھوٹ کیسے ہوا
08:44اسی طرح ساتھی صرف اسی کو نہیں کہتے جو آپ کے شانہ بشانہ لڑے
08:47بلکہ وہ آدمی بھی ہمارا ساتھی ہی کہلاتا ہے جو لڑ تو کسی دوسرے محاذ پر رہا ہو
08:52لیکن اس کا اور ہمارا مقصد مشترک ہو
08:54میں نے کہا گویا آپ کے نزدیک میرا اور آپ کا مقصد مشترک ہے
08:58وہ بولے بلکل مشترک ہیں آپ بھی کفر سے برسرے بیکار ہیں
09:02ہم بھی یہی مقصد لیے میدان میں اترے ہیں
09:04بس طریقہ کار تھوڑا مختلف ہے
09:06بلکہ آپ نے تو کئی بار اسلحی کی صورت میں مجاہدین کی کھلنم کھلا مدد بھی کی ہے
09:10اور ایسا کوئی ساتھی ہی کیا کرتا ہے غیر نہیں
09:13میں مسکر آیا ٹھیک ہے جنب میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں
09:16کمانڈر عبدالحق میری حسی میں شامل ہوتا ہوا بولا
09:19غلط الفاظ واپس لینے ہی میں بھلائی ہوتی ہے
09:21زندگی میں ایک دم ٹھہراؤ آ گیا تھا
09:24اس سے پہلے بھی میں ایک بار کمانڈر نصر اللہ کی بیٹھک میں صاحب فراش ہو چکا تھا
09:28جب میری تیمار داری پلوشہ نے کی تھی
09:30پلوشہ نے جس طرح میری خدمت کی تھی اور جیسے میرا خیال رکھا تھا
09:34ایسا کوئی نہائی تھی محبت کرنے والا رکھ سکتا ہے
09:36اور اب وہ پلوشہ جانے کہاں چلی گئی تھی
09:39لگتا تھا شاید اسے دیکھے صدیاں بید گئی ہوں
09:41اپنے آرام و سکون کو ٹھوکر مار کر
09:43وہ میری بے گناہی کے ثبوت حاصل کرنے گئی تھی
09:46اس کے ساتھ میرا یار سردار خان بھی تھا
09:48نہ جانے وہ بہن بھائی کہاں بھٹکتے پھر رہے تھے
09:50میرے دن رات نہائیت بے کیف گزر رہے تھے
09:53عزوے موتل بن کر میں کسی کام کا نہیں رہا تھا
09:56بس آنے جانے والے مجاہدین کی باتیں سن کر میں جی کو بہلاتا رہتا
09:59اکیلا بیٹھنے کی صورت میں تو پلوشہ فوراں آدھمکتی تھی
10:02کھانے پینے کا سامان اور روز مرہ ضروریات کا دوسرا سامان
10:06وہ پکتکہ سے لے کر آتے تھے
10:07مجھے وہاں ہفتے سے زیادہ ہونے کو تھا
10:10اس دن بھی چار مجاہد آئے ہوئے تھے
10:12وہ چھٹی جا رہے تھے
10:13میں بھی کمانڈر عبدالحق کے ساتھ بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا
10:16وہ چاروں گردے اس سے آئے تھے
10:18کمانڈر عبدالحق اسلام نامی مجاہد کو مخاطب ہوا
10:21اسلام بھائی
10:22اس مرتبہ کچھ دیر سے چھٹی جا رہے ہو
10:24اسلام نے جواب دیا
10:25یوں تو میرا ارادہ پچھلے ماہ ہی چھٹی جانے کا تھا
10:28مگر کام کچھ بڑھ گیا تھا
10:30مجبوراں مہینہ بھر مزید گزارنا پڑا
10:32کمانڈر عبدالحق نے مزاہیہ انداز میں
10:34باقی تینوں کی طرف اشارہ کیا
10:35تو ان کی چھٹی بھی موخر کرنا تھی
10:37اسلام ہسا کیوں مجھے مروانے کے چکروں میں ہو
10:40ایک تو دشمن نے ہماری حرکت کو محدود کیا ہوا ہے
10:42اور تم چاہتے ہو اندرون خانہ بھی دشمن کھڑے ہو جائیں
10:45شفیق نامی مجاہد صفائی پیش کرتے ہوئے بولا
10:48یہ تو خیر کمانڈر زیادتی کر رہا ہے
10:50انہوں نے خود ہی ہمیں چھٹی کے لیے زور دیا ہے
10:52عبدالحق پوچھنے لگا
10:54ویسے دشمن کی بات میرے سر پر سے گزر گئی ہے
10:56اسلام نے حیرانی سے پوچھا
10:58کیا آپ تک یہ خبر نہیں پہنچی
10:59کون سی
11:00کمانڈر عبدالحق ہمتن گوش ہو گیا
11:02میرے کان بھی کھڑے ہو گئے
11:04اسلام تفصیل بتلاتے ہوئے بولا
11:05ایک برطانوی نشان باز نے حقیقت میں
11:07اپنی زندگی اجرین کر رکھی ہے
11:09قریباً 20-22 مجاہد اس کی گولی کا شکار ہو چکے ہیں
11:12ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے سے بھی
11:14کمبخت کی گولی سر میں ہی لگتی ہے
11:16اس کی وجہ سے ہماری حرکت کافی محدود ہو گئی ہے
11:28سٹوٹ ہے اور برطانوی آرمی سے تعلق رکھتا ہے
11:30اس کی مددگار بھی کوئی برطانوی لڑکی ہی ہے
11:32وہ بھی اچھی خاصی ماہر نشان باز ہیں
11:35ہم اپنی پوری کوشش کے باوجود
11:37ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے ہیں
11:38عبدالحق گہرا سانس لیتے ہوئے بولا
11:41عجیب بات سنا رہے ہو
11:42اسلام نے کہا ہم عجیب مگر حقیقت ہے
11:44میں ان کی گفتگو میں مخل ہوا
11:46آپ لوگوں کے پاس دور مار ہتھیار نہیں ہے کیا
11:48اسلام میری طرف متوجہ ہوا کیوں نہیں ہے
11:50چند ماہ پہلے ہی ہمارے ہاتھ
11:52تین ہیوی رائیفلز لگی ہیں
11:54کمانڈر صدیق بتا رہا تھا کہ وہ رینج ماسٹر ہے
11:56اور دو کلومیٹر تک کسی بھی آدمی کو
11:59ان سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے
12:00ان کا ایمونیشن بھی موجود ہے لیکن دو کلومیٹر تو کیا
12:03ہم میں سے کوئی دو تین سو میٹر کے فاصلے پر بھی
12:06اس رائیفلز سے نشانہ نہیں بنا سکتا
12:08ہمیں تو بیکار وزن ہی محسوس ہو رہی ہیں
12:10وہ رینج ماسٹر کو بیکار وزن کہہ رہا تھا
12:12یقیناً ان میں سے کوئی رینج ماسٹر کی افادیت سے واقف نہیں تھا
12:16ورنہ وہ کبھی ایسا نہ کہتے ہیں
12:17میں نے پوچھا کمانڈر صدیق بھی اس سے فائر نہیں کر سکتا
12:20وہ بولے کمانڈر صدیق نے ان رائیفلز کے اندر موجود کتابچے سے
12:24ان کے نام ہمیں بتائے ہیں
12:25باقی اس رائیفلز کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے
12:28صحیح ہے
12:28اسبات مصر ہلاتے ہوئے میں خاموش ہو گیا
12:31کمانڈر عبدالحق بڑے غور سے میری جانب دیکھ رہا تھا
12:34مگر میں جانبوچ کر انجان بنا بیٹھ رہا
12:36اسلام عبدالحق کی طرف متوجہ ہوا
12:38ویسے آپ نے زیشان بھائی کا مکمل تعرف نہیں کروایا
12:41وہ بولے زیشان بھائی کا تعلق پاک آرمی سے ہیں
12:44اور انہوں نے کافی بار ہماری مدد کی ہیں
12:46اب کسی کام کے سلسلے میں افغانستان آنا ہوا ہے
12:49رستے میں غلط فہمی میں ایک قبیلے سے ٹاکرا ہو گیا
12:51انہی سے لڑتے ہوئے زخمی ہو گئے ہیں
12:53خوش قسمتی سے ہمارے ٹھکانے کے نزدیک ہی یہ لڑائی ہوئی تھی
12:56بس ہم بھائی کو یہاں لے آئے
12:58ہفتہ ڈیڑھ ہی ہوا
12:59تب سے یہ یہی پر ہیں
13:01اور جب تک مکمل سے اجاب نہیں ہو جاتے
13:03میں انہیں کہیں جانے کی اجازت بھی نہیں دوں گا
13:06اسلام فوراں شاکی ہوا
13:07کس قبیلے سے لڑائی ہوئی تھی
13:09کم از کم آپ کو ان سے گلہ تو کرنا چاہیے تھا
13:12جو شخص ہمارا مددگار رہ چکا ہے
13:14وہ ہمارا ساتھی ہی ہے
13:15اور ہمارے ساتھیوں کو کوئی یوں زخمی کرے
13:17اس کی اجازت ہم نہیں دیں گے
13:19کمانڈر عبدالحق ہسا
13:20صحیح کہہ رہے ہیں آپ
13:22گلہ کرنا تو ہمارا بنتا تھا
13:24لیکن ایک چھوٹا سا مسئلہ تھا
13:25اس لیے مجھے خاموش ہونا پڑا
13:27اسلام نے حیرانی سے پوچھا کیسا مسئلہ
13:29کمانڈر عبدالحق اتمنان سے بولا
13:31یہی کہ اس قبیلے کے دو درجن افراد زخمی ہوئے
13:34اس کے علاوہ انہیں سات لاشیں بھی اٹھانا پڑی
13:36اسلام ششتر رہ گیا
13:38کیا مطلب
13:38اس کے باقی تین ساتھی بھی حیرانی سے گھورنے لگے
13:41کمانڈر عبدالحق نے مو بنایا
13:42میں عبرانی تو نہیں بول رہا
13:44سادہ پشتوں میں بات کر رہا ہوں
13:46وہ بولے مگر اکیلہ آدمی
13:47کمانڈر عبدالحق تحسین آمیز لہجے میں بولے
13:50جی اکیلہ آدمی اگر ایس ایس ہو
13:52تو بہت کچھ کر سکتا ہے
13:53اسلام نے مجھے گھورتے ہوئے کہا
13:55ایس ایس
13:55گویا آپ کا مطلب ہے زیشان بھائی ہی ایس ایس ہیں
13:58وہی پلو خان میرا مطلب ہے پلوشہ کا ساتھی
14:01وہ بولے ساتھی نہیں شوہر
14:02اب موطرم نے پلوشہ بیٹی کے ساتھ شادی کر لی ہے
14:05اسلام نے فوراں ہی پرخلوس لہجے میں کہا
14:07مبارک ہو زیشان بھائی
14:08میں نے انکساری سے کہا شکریہ دوست
14:11اس کے بعد ہم کافی دیر وہاں بیٹھے رہے
14:12موضوع گفتگو میری ذات ہی بنا رہا
14:14اسلام اور اس کے ساتھ ہی انہیں ساری گپشپ کو پس پشت ڈال کر
14:18میری کہانی میری زبانی سننے پر اسرار کیا
14:21گو میری زیادہ تر باتیں تو ان تک پہنچی ہوئی تھی
14:23مگر کسی اور زبانی پہنچی ہوئی باتوں میں
14:26جھوٹ اور مبالغے کی ملاوٹ ضرور ہوتی ہیں
14:28میں ان کے اسرار کے سامنے زیادہ دیر ٹک نہیں پایا تھا
14:31اگلے دن کمانڈر اسلام اور اس کے تینوں ساتھی
14:33جانے سے پہلے الویدائی ملاقات کے لیے آگئے تھے
14:35میں نے ان سے جانے کی رستے کی بابت دریافت کیا
14:38اسلام نے جو راستہ بتلایا وہ خاگہ اوبو سے گزر کر ہی جاتا تھا
14:42خاگہ اوبو گلگارے کا گاؤں تھا
14:44انہیں رخصت کرنے میں غار سے باہر تک گیا تھا
14:47اب بے ساکھی کے سہارے میں اچھا بھلا چل لیتا تھا
14:49میرا زخم پہلے سے کافی بہتر ہو گیا تھا
14:52بازو کا زخم تو تقریباً بھر چکا تھا
14:54لیکن پنڈلی اور ران کا زخم اتنی جلدی مکمل ٹھیک نہیں ہو سکتا تھا
14:58اس دن دوپہر کو کھانا کھاتے ہوئے کمانڈر عبدالحق نے پوچھا
15:01زیشان بھائی ایک بات پوچھوں
15:02میں خفیف ہوتے ہوئے بولا اس میں اجازت لینے کی ضرورت ہے
15:05شکریہ کہہ کر اس نے پوچھا
15:07کل آپ اسلام بھائی سے دور مار رائفل کے استعمال کے بارے میں کیوں پوچھ رہے تھے
15:10کیا آپ اس رائفل کو استعمال کرنا جانتے ہیں
15:13ایک لمحہ سوچ کر میں نے اس بات میں سر ہلایا جانتا ہوں
15:16وہ بولے اگر میں کہوں کہ آپ ہمارے کسی ساتھی کو اس رائفل کا استعمال سکھا دیں
15:20تو کیا یہ درخواست منظور ہو جائے گی
15:22میں نے بھرپور قیقہ لگایا درخواست اور منظوری
15:24عبدالحق بھائی کچھ زیادہ ہی میٹھا نہیں ڈال دیا
15:27عبدالحق نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا
15:29کسی سے بھی کام لینے کے دو طریقے ہیں
15:31حکم دینا یا درخواست کرنا
15:33اور ہم آپ سے درخواست ہی کر سکتے ہیں
15:35میں نے کہا اپنوں کو نہ تو حکم دیا جاتا ہے
15:37اور انہوں درخواست کی جاتی ہے
15:38بس ان تک اپنی خواہش پہنچا دی جاتی ہے
15:41وہ فوراں اپنی سابقہ بات سے رجوع کرتا ہوا بولا
15:44تو بس سمجھ لیں کہ میں نے اپنی خواہش آپ تک پہنچا دی ہیں
15:47میں صاف گوئی سے بولا
15:48عبدالحق بھائی آپ کی خواہش کو پورا کرنا
15:51میرے لیے نہائی تھی دشوار اور مشکل ہوتا
15:53لیکن اس حالت میں میں کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں ہوں
15:57اس لیے آپ رائیفل اور سیکھنے والے دو تین آدمی یہیں پر بلوالیں
16:00میں انہیں تربیت دے دوں گا
16:01عبدالحق نے مزاہیہ انداز میں کہا
16:03کہنا تو نہیں چاہیے مگر آپ کا زخمی ہونا ہمارے لیے فائدہ مند رہا ہے
16:07اس کی بعد نے مجھے ہنسنے پر مجبور کر دیا
16:09دو دن بعد چار آدمی رینج ماسٹر کے دو بکس لے کر پہنچ گئے تھے
16:13اس کے ساتھ وہ رینج ماسٹر کی دو سو گولیاں بھی لائے تھے
16:16کمانڈر عبدالحق نے گزشتہ دن میرا اندیا لیتے ہی
16:21وائرلیس بیس پر اپنے گردیس کیمپ میں موجود کمانڈر سے بات کر لی تھی
16:25اور کوٹ ورڈ میں انہیں رائیفلیں ایمونیشن اور آدمی بھیجنے کا بتا دیا تھا
16:30اس دعوت کو غنیمت جانتے ہوئے انہوں نے بغیر کسی تاخیر کے چار آدمی اس جانب روانہ کر دیا تھے
16:35ان دنوں مجھے وقت گزارنا مشکل ہو جائے کرتا تھا
16:38حالانکہ جب پلوشہ زخمی تھی
16:40اس وقت ہم نے دو ماہ کے قریب عرصہ یوں ہی کوئی کام کیے بغیر گزار دیا تھا
16:44مگر وہ دو ماہ میری زندگی کے سب سے زیادہ تیز گزرنے والے دن تھے
16:48رات دن لمحوں میں بیچ جائے کرتے تھے
16:50اور وہی شب و روز مہینوں پر محیط ہو گئے تھے
16:53گردیس کیمپ سے آنے والے چاروں جوان سال مجاہد تھے
16:56ان میں سے تو دو میرے ہم عمر تھے
16:57جن کا نام صغیر اور احسان تھا
16:59اسلام مجھ سے سال دو سال بڑا ہوگا
17:01جبکہ مبین با مشکل اٹھارہ انیس سال کا لڑکا تھا
17:04رات ہی کو میں نے رینج ماسٹر کے دونوں بکس کھول کر سامان کا جائزہ لیا
17:08سارا سامان مکمل دیکھ کر میں نے اتمنان کا سانس بھرا
17:11سردار اور میں نے امریکہ میں سنائپر کورس کے دوران
17:14اس رائفل کے متعلق بہت تفصیل سے پڑھا تھا
17:16اور یہ وہ رائفل جس سے میں سب سے زیادہ فائر کیا تھا
17:19میں نے چاروں سیکھنے والوں کو تربیت کا وقت بتایا
17:22صبح نماز کے بعد تیار رہنا
17:23اور وہ سر ہلاتے ہوئے چلے گئے
17:25کمانڈر عبدالحق کچھ دیر مزید میرے ساتھ بیٹھا رہا
17:28اس کے جانے کے بعد میں سونے کے لیے لیٹ گیا
17:30کہ صبح آرام کا موقع نہ ملتا
17:32صبح کی نماز کے بعد
17:33ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر
17:35چاروں جوان پہنچ گئے تھے
17:37کمانڈر عبدالحق نے بھی ان کے ہمراہ بیٹھ کر
17:39سیکھنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی
17:41میں نے تمہیدی باتچیت میں رینج ماسٹر کی خوبیوں پر روشنی ڈالی
17:44اور انہیں باور کروایا
17:46کہ ایک تربیت یافتہ آدمی
17:47اس رائفل سے کتنا فائدہ اٹھا سکتا تھا
17:49اس کے بعد میں انہیں رائفل کے پرزوں وغیرہ کے بارے میں
17:52تفصیل سے بتانے لگا
17:53کہ کس طرح وہ اس رائفل کو ٹکڑوں میں کھول سکتے تھے
17:56وہ سارا دن میں
17:57انہیں رائفل کے متعلق ہی پڑھاتا رہا
17:59اس کے ساتھ انہیں بھی موقع دیا
18:01کہ وہ بار بار رائفل کو کھولیں اور جوڑیں
18:03اس کے ساتھ میں انہیں اس رائفل سے
18:05مختلف پوزیشنوں سے فائر کرنے کے طریقے بھی بتاتا رہا
18:08وہ سارا کام چونکہ ہم بند کمرے میں بھی کر سکتے تھے
18:10اس لیے غار کے اندر بیٹھ کر ہی سکھلائی کرتے رہیں
18:13اگلے دن میں انہیں غار سے باہر لے گیا
18:15سنائپر رائفل میں سب سے زیادہ کام
18:17چونکہ ٹیلیسکوپ سائٹ کا ہوتا ہے
18:19اس لیے اس کے بارے میں جاننا
18:21ایک سنائپر کے لیے بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے
18:23اس کے باوجود وہ سنائپر بننے نہیں آئے تھے
18:25لیکن انہیں اچھا نشانباز تو بننا تھا
18:28لیوپولڈ سائٹ کے بارے میں
18:29ہم سنائپر ہونے کے باوجود پورا ہفتہ پڑھتے رہے تھے
18:32میں انہیں وہ سب کچھ تو اس لیے نہیں پڑھا سکتا تھا
18:35کہ اس کام میں کافی وقت صرف ہوتا
18:36میں بس انہیں ضروری اور کام کی باتیں بتاتا رہا
18:39لیوپولڈ سائٹ پر تو عام آدمی
18:42صحیح طریقے سے رینج بھی نہیں لگا سکتا
18:44ہر فاصلے کے لیے
18:45ایلیویشن ڈرم پر مخصوص کلک لگانے پڑتے ہیں
18:47تمام کلکس کی ترتیب میں نے انہیں لکھ کر دے دی تھی
18:50تاکہ وہ اسے زبانی طور پر یاد رکھیں
18:52وہ پورا دن میں انہیں لیوپولڈ سائٹ کے متعلق پڑھاتا رہا
18:55کمانڈر عبدالحق بھی سیکھنے میں بہت دلچسپی لے رہا تھا
18:59رات کو وہ اپنے غار میں کافی دیر تک دن کی سکھلائی کو دہراتے رہے
19:03مجاہدین کا وہ ٹھکانہ غار در غار بنا ہوا تھا
19:06یوں جیسے کسی مکان میں کوئی کمرے بنے ہوتے ہیں
19:09تیسرے دن میں انہیں فائر کروانے لگا
19:11رائفل کے صفر ہونے کے بعد وہ چھ سات سو میٹر کے فاصلے پر
19:15آسانی سے چھوٹے چھوٹے پتھروں کو نشانہ بنا رہے تھے
19:18عملی طور پر رینج ماسٹر کی کارکردگی دیکھ کر
19:21انہیں بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا
19:23کمانڈر عبدالحق نے بھی درجن بھر گولیاں چلا کر اپنا نشانہ آزمایا تھا
19:27اگلے دو ہفتوں میں میں انہیں مختلف فاصلوں سے فائر کرواتا رہا
19:30ان میں سے اچھا فائر مبین تھا جو عمر میں تمام سے چھوٹا تھا
19:34وہ پندرہ سو میٹر دور کے حدف کو نشانہ بنا لیتا تھا
19:37چونکہ ان کے پاس گولیوں کی محدود تعداد تھی
19:39اس لئے ہر آدمی روزانہ تین چار گولیاں ہی فائر کر پاتا
19:43اس سارے تربیتی عرصے کے دوران انہوں نے چند بار میرا فائر دیکھنے کی خواہے ظاہر کی
19:48مگر زخمی ہونے کا بہانہ کر کے میں نے معذرت کر لی
19:50البتہ آخری دن جب ان کے پاس فقط دو گولیاں باقی بچی تھی
19:54کمانڈر عبدالحق نے اسرار کیا کہ وہ دونوں گولیاں میں فائر کروں
19:57اس کی حکم نمہ التجاب پر سرے تسلیم خم کرتے ہوئے میں نے دونوں گولیوں سے
20:02انیس سو میٹر دور چھوٹے چھوٹے پتھروں کو نشانہ بنا کر
20:05رینج ماسٹر پر ان کا اعتماد مزید پختہ کر دیا
20:08اگلے دن ان چاروں نے واپس جانا تھا
20:11کیونکہ گردیس کیمپ میں بڑی بیچینی سے ان کا انتظار ہو رہا تھا
20:14رات کو انہیں اپنے کمروں میں بٹھا کر
20:16میں نے سنائپنگ کے مطالق اہم باتیں دوہرائیں
20:18کچھ نئی نکتے ان کے گوشت گزار کیے
20:20تاکہ وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں
20:23صبح صویرے واپس جاتے ہوئے چاروں بڑی عقیدت سے مجھ سے ملے
20:26میرے دن پھر بیزاری سے گزرنے لگے
20:28پنڈلی کا زخم تو قریباً ٹھیک ہو ہی گیا تھا
20:31لیکن ران کا زخم ابھی تک اتنا ٹھیک نہیں ہوا تھا
20:34کہ میں آگے بڑھ سکتا
20:35سردی کی وجہ سے زخم یوں بھی ٹھیک ہونے میں زیادہ وقت لیتا ہے
20:38اب بھی کمانڈر عبدالحق کے ساتھ
20:40اپنے ٹھکانے سے پانچ چھے سو میٹر دور چلا جاتا تھا
20:43ایک دن ہم سپہر کو لوٹے
20:45تو یہ روح فرصہ خبر سننے کو ملی
20:47کہ صغیر برطانوی سنائپر
20:49نکس ٹوورٹ کی گولی کا شکار ہو گیا ہے
20:51جبکہ اسلم شدید زخمی تھا
20:53گولی اس کے سر سے رگڑ کھاتے ہوئے
20:55گہرا زخم چھوڑ کر نکل گئی تھی
20:56وہ بڑی حمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیمپ تک واپس پہنچا تھا
21:00بعد میں صغیر کی لاش اٹھانے کے لیے
21:02جانے والے پانچ آدمیوں میں سے
21:04دو آدمی بھی نکس ٹوورٹ
21:05یا اس کے ساتھی کی گولی کا نشانہ بن گئے تھے
21:07یوں لاش اٹھانے کے لیے انہیں رات کا انتظار کرنا پڑ گیا تھا
21:10اس بات کو دو دن گزر گئے تھے
21:12اب شہدہ کے گھروں تک یہ خبر پہنچانے کے لیے
21:15جو دو آدمی جا رہے تھے
21:16ان کی زبانی ہم تک یہ خبر پہنچ گئی تھی
21:18اسلم اور صغیر دونوں میرے شاگر تھے
21:21تین ہفتے تک ہم دن رات مسلسل ساتھ رہے تھے
21:24اب ایک دم ان کی مات کا سن کر میرا دل دکھ سے بھر گیا تھا
21:27ہفتہ بھر پہلے ہی وہ ایک امید لے کر یہاں سے واپس لوٹے تھے
21:31برطانوی سنائپرز کو انجام تک پہنچانے کے لیے وہ پرعظم تھے
21:34گو ان سنائپرز کی جو کہانیاں مجھ تک پہنچ چکی تھی
21:37اس کے بعد ان چاروں سے مجھے اتنی امید تو نہیں تھی
21:40کہ وہ انہیں ختم کر سکیں گے
21:42لیکن یہ تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا
21:44کہ وہ خود ان کا نشانہ بن جائیں گے
21:45حالانکہ میں نے انہیں سنائپرز کے حربوں اور چالاکیوں سے اچھی طرح آگاہ کر دیا تھا
21:50یقیناً وہ میرے ہدایت پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کر سکے تھے
21:53اور یہی وجہ تھی کہ اپنے ساتھی کی لاش اٹھانے کے لیے
21:56وہ یوں مو اٹھا کر بھاگتے چلے گئے تھے
21:58حالانکہ میں انہیں اچھی طرح بتا چکا تھا
22:00کہ ایک سنائپر مخالف کی نفسیات سے کھیلتا ہے
22:02اور اپنے حدف کا انتظار کرنے کے لیے
22:05وہ گھنٹوں نہیں دنوں انتظار کر سکتا ہے
22:07گو تمام آدمی یہ بات نہیں جانتے تھے
22:09مگر میرے دو اور شاگرد مبین اور احسان تو وہاں موجود تھے
22:13وہ انہیں اس خطرے سے آگاہ کر سکتے تھے
22:15اب یہ معلوم نہیں تھا کہ احسان وغیرہ نے انہیں خبردار نہیں کیا
22:19یا انہوں نے خود ہی بے پروائی برتی تھی
22:21سغیر ایک ہنسمکھ اور بہادر جوان تھا
22:24اس کا تعلق مانسہرہ جیسے خوبصورت علاقے سے تھا
22:27اس کے دل میں اسلام اور پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی
22:30رینج ماسٹر سے فائر کرتے ہوئے وہ اکثر کہتا ہے
22:33استاد زیشان امید کرتا ہوں ان دونوں کی موت میری ہی گولی سے ہو
22:36جب میں نے انیس سو میٹر سے پتھر کو نشانہ بنایا تھا
22:39تب اس نے بے ساختہ کہا تھا
22:40اگر ان کافروں کو پتا چل گیا کہ ہمارے استاد ایس ایس کا نشانہ کیسا ہے
22:44یقیناً وہ بھاگنے میں دیر نہیں لگائیں گی
22:47کمانڈر عبدالحق نے ہستے ہوئے پوچھا تھا بیٹا
22:49استاد کو چھوڑو اپنی سناو
22:50وہ عزم سے بولا میں تو انہیں بھاگنے بھی نہیں دوں گا
22:53آنے والے وقت سے کوئی بھی واقف نہیں ہوتا
22:55اگر اسے معلوم ہوتا کہ اس نے ابھی سنائپرز کا نشانہ بننا ہے
22:59تو شاید ایسا دعویٰ نہ کرتا
23:01اس کی شادی کو ایک ہی سال ہوا تھا
23:03محاس پر آنے سے پہلے اس کی بیوی امید سے تھی
23:05اس نے پختہ ارادہ کر لیا تھا
23:06کہ وہ نو ماہ گزارنے کے بعد ہی گھر جائے گا
23:09تاکہ اپنی بیوی اور بچے سے ملنے کی دوہری خوشی سے لطف اندوز ہو سکیں
23:12اسے چھٹی سے آئے آٹھ ماہ ہو چکے تھے
23:15اور اب ایک مہینہ گزار کر
23:16اس نے گھر جانا تھا
23:18لیکن اجل نے اسے موقع ہی نہیں دیا تھا
23:20اپنے محبوب کے آمد کے لیے چشم براہ بیوی کو
23:23اس کی شکل دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا
23:25کمانڈر عبدالحق میری غار میں داخل ہوا
23:27اس نے فکر مندی سے پوچھا
23:30مجھے معلوم ہی نہیں ہوا
23:31کہ میری آنکھوں میں آنسو بہ رہے تھے
23:33میں نے کہا پتہ نہیں یار
23:34آنکھوں پر الٹا ہاتھ پھیرتے ہوئے
23:36میں نے عجیب سے لہجے میں کہا
23:38اگر موت کے بعد بھی فنا ہو جانا ہوتا
23:40تو کافی گھاٹے کا سودا تھا
23:42اس نے مجھے سمجھایا تھا
23:43یا شاید تسلی دی تھی
23:44میں نے کہا جانتا ہوں
23:46میں نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا
23:48لیکن دکھ اور غم کا احساس قدرتی ہوتا ہے
23:50کمانڈر عبدالحق میرے ساتھ ہی بستر پر بیٹھ گیا
23:52اللہ پاک ان کے درجات بلند کریں
23:55دوسرے دن مخابرے پر اسلم کی حالت کے بارے میں
23:57معلوم ہوا تو پتہ چلا
23:58کہ وہ بھی شہید ہو چکا ہے
24:00یقیناً علاج کی بہتر سہولت نہ ہونے کی وجہ سے
24:03وہ جانبر نہ ہو سکا تھا
24:05اللہ تعالیٰ تمام شہیدوں کے درجات بلند کرے
24:07چینل کو سبسکرائب کیجئے
24:11اور بیل آئیکن پر کلک کیجئے
24:12تاکہ آپ کو تمام ویڈیوز فوراں ملتی رہیں