Skip to playerSkip to main contentSkip to footer
  • 5/5/2025
Sniper series episode 64 a story full of thrill and suspense operation in waziristan most deadly operation in waziristan
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army

Category

😹
Fun
Transcript
00:00موسیقی
00:30موسیقی
01:00موسیقی
01:30موسیقی
02:00موسیقی
02:30موسیقی
02:32موسیقی
02:36موسیقی
02:38موسیقی
02:46دودھ ہی پلا سکیں کبھی ماں جگر کے ٹکڑوں کو بلگتا چھوڑ جاتی ہیں اور کبھی بچے ماں کو ہمیشہ رونے کا سامان مہیا کر کے رخصت ہو جاتے ہیں
02:54کسی شاعر نے کہا ہے سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں امید اور نا امیدی کی کشمکش میں میں مبتلا گرتا پڑتا آگے بڑھتا رہا
03:02حمد کر کے میں نے کلائی پر بندھی گھڑی پر سے کوٹ کی اکڑی ہوئی آستین کو بمشکل ہٹا کر وقت دیکھا
03:07گھنٹے والی سوئی پانچ کے ہند سے کو چھو رہی تھی سورج گروب ہونے میں بس آدھا گھنٹہ رہ گیا تھا
03:13اب میری رات بھی اسی حالت میں گزرتی تو یقیناً مجھے مرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی تھی
03:18برف باری شروع ہوتے وقت میرے ذہن میں ایک بار واپس غار کی طرف لوٹ جانے کا خیال آیا جہاں کہ میں نے گزشتہ شب گزاری تھی
03:25مگر چند کلومیٹر تیہ کیا ہوا فاصلہ میرے پاؤں کی بیڑی بن گیا
03:29اور آگے کسی مناسب جگہ کے ملنے کی امید نے مجھے واپس پلٹنے نہ دیا
03:33اب تو میں اس غار تک بھی نہیں جا سکتا تھا کہ نجانے وہ کتنا پیچھ رہ گیا تھا
03:37اور پھر رات کے اندھیرے دھند اور برف باری میں اس تنگ غار کے دھانے کو تلاش کرنا
03:43بھوسے کے دھیر سے سوئی ڈھوننے کے مترادف تھا
03:46ملگجہ اندھیرہ تاریکی میں تبدیل ہونے لگا تھا
03:48میں رینے کی رفتار سے آگے بڑھتا رہا
03:50میرے قدم من من کے ہو رہے تھے
03:52سردی کے ساتھ تھکن سے بھی برا حال تھا
03:55میں بالکل نٹھال ہو گیا تھا
03:56عام حالات میں میں چوبیس گھنٹوں سے بھی زیادہ مسلسل چل چکا تھا
04:00مگر اس دن چند گھنٹوں نے میرا برا حال کر دیا تھا
04:03اس تھکاوٹ میں زیادہ عمل دخل موسم کی شدت اور میرے گیلے لباس کا تھا
04:08برفانی طوفان انسان کا سانس لینا بھی مشکل بنا دیتا ہے
04:11درختوں کی بہتات کے باوجود اس علاقے میں آکسیجن لیول بہت کم ہے
04:15سردی کے ساتھ مجھے سخت بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی
04:17مگر مجھ میں اتنی حمد نہیں تھی
04:19کہ پشت پر لدے تھیلے کو کھول کر بسکٹ نکال لیتا
04:22تھیلہ بالکل اکڑ گیا تھا
04:24بلکہ میرے پورے لباس کی بھی یہی حالت تھی
04:26تھیلے میں ٹارچ بھی موجود تھی
04:28لیکن اندھیرہ ہونے کے باوجود میں نے ٹارچ نہیں نکالی تھی
04:31چڑھائی چڑھ کر میں نسبتاً ہموار جگہ پر پہنچا
04:34چند لمحے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر میں جھک کر کھڑا رہا
04:37تاکہ چڑھا ہوا سانس تھوڑا ہموار ہو
04:39لیکن جو ہی سیدھا ہو کر میں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی
04:42ٹانگوں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا
04:44قدم اٹھانے کی کوشش میں میں موہ کے بل دھڑام سے نیچے گرا
04:48اور لمحہ بھر یوں ہی پڑھا رہا
04:49شاید میری زندگی کا خاتمہ قریب تھا
05:01زندگی کو الویدہ کہنا اور پلوشہ کو الویدہ کہنا ایک ہی برابر تھا
05:10اس وقت زندگی میرے ہاتھوں سے بند مٹھی میں دبی ریت کی معنی سرک رہی تھی
05:14نیچے جھکا سر میں نے ذرا سا اوپر اٹھایا
05:16اور یہ دیکھتے ہی میرا دل بے اختیار دھڑک اٹھا
05:19کہ چند گز کے فاصلے پر روشنی نظر آ رہی تھی
05:21میں نے موہ سے آواز نکالنے کی کوشش کی مگر ہونٹ جیسے اکڑ گئے تھے
05:25میرے موہ سے نکلنے والی مدھم آواز مشکل سے میری سماتوں تک پہنچ رہی تھی
05:29برف کے اس توفان میں یہ مدھم آواز مکان میں بند کسی آدمی کے کانوں تک کیسے پہنچتی
05:35اٹھنے کی کوشش میں میں بس ہل کر رہ گیا
05:38ایک دم میرے دماغ میں کسی شاعر کے خوبصورت الفاظ گونجے
05:41قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
05:44دو چار ہاتھ جبکہ لبے بام رہ گیا
05:46جب اٹھنے کی ساری کوششیں بیکار گئیں تو میں نے رینگ کر ہی آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا
05:51اگر کوئی بات میرے حق میں جاتی تو وہ اس جگہ کا ہموار ہونا تھا
05:55میری ٹانگیں بالکل شل ہو گئی تھی
05:56البتہ بازو تھوڑی بہت حرکت کر سکتے تھے
05:59دستانوں کی وجہ سے ہاتھوں میں بھی ذرا سی جان باقی تھی
06:02سب سے پہلے تو میں نے کوشش کی
06:03اپنی پشت پر لدے تھیلے سے بازو نکال کر اس سے جان چھڑائے
06:07اس کے ساتھ ہی کلیشن کوف بھی میرے کندے سے نکل گئی تھی
06:10اس بوجھ کو اتار کر مجھے ذرا سہولت ہو گئی تھی
06:13اب میں آگے بڑھنے کو تیار تھا
06:15بازو آگے بڑھا کر میں نے کوہنیوں پر زور دیا
06:17اور چند انچ آگے کو کھسکا
06:19اور پھر میں مسلسل یہ حرکت دہرانے لگا
06:21چند گز کا فاصلہ ناقابل عبور کھائی کی طرح
06:24میری راہ میں حائل تھا
06:25میری مثال اس دودھ پیتے بچے سے بھی بدتر تھی
06:28جو دودھ کی بوتل کو خود ہاتھ سے پکڑ کر پی نہیں سکتا
06:31بس حلق پھاڑ کر چیختا رہتا ہے
06:33کہ ماں اپنے ہاتھ سے بوتل اس کے موہ سے لگا دی
06:36اور مجھ میں تو چیختنے کی بھی سکت نہیں رہی تھی
06:38حمد ہارے بغیر میں انچوں کے حساب سے آگے کھسکتا رہا
06:42وہ فاصلہ جسے عام حالات میں تیق کرنے میں
06:45مجھے ایک سیکنڈ بھی نہ لگتا
06:46اب وہ فاصلہ زمین اور آسمان کی درمیانی خلا کے مستاق بن گیا تھا
06:50لیکن کہتے ہیں مسلسل حمت اور کوشش انسان کو کامشابی سے ہم کنار کر دیتی ہیں
06:55میں بھی آخر دروازے کے قریب پہنچ گیا
06:58اپنی بے پناہ خوشی پر قابو پاتے ہوئے
07:00میں نے اپنا نحیف ہاتھ بڑھا کر دروازے پر دستک دی
07:03اور اس کے ساتھ ہی میرا دل ڈوبنے لگا
07:05کہ میری دستک کی آواز سے زیادہ
07:07تو دروازہ ہوا سے ہل کر شور پیدا کر رہا تھا
07:10میری دستک سے جو آواز پیدا ہو رہی تھی
07:12اسے خود میرے کان نہیں سن پا رہے تھے
07:14کمرے میں آرام کرتے لوگ خاک سن پاتے
07:16چند بار کوشش کرنے کے بعد
07:18میں نے سر نیچے پھینک دیا
07:19میری ساری کوشش اور محنت بیکار گئی تھی
07:22یقیناً گھر والوں کو صبح کے وقت ہی
07:24بن بلائے مہمان کا پتا چل پاتا
07:26اور اس وقت وہ اس مہمان کی ایک ہی خدمت کرتے
07:29کہ اسے کفن پہنا کر
07:30کسی مناسب جگہ دفن کر دیتے
07:32برف پر مسلسل لیٹنے کی وجہ سے
07:34ایک بار پھر میں بے ہوشی کا شکار ہونے لگا تھا
07:36آنکھیں بند ہوتی ہی پلوشہ
07:38دھم سے میرے خیالوں میں آنکھ ہو دی
07:40مجھے سردی سے کامت دیکھ کر وہ مسلسل
07:42قیقہ لگا رہی تھی
07:43وہ کہہ رہی تھی کمبل تو میرا اپنا ہے یہ تو نہیں دوں گی
07:46میں کہہ رہا تھا پلوشے مجھے سردی لگ رہے ہیں
07:49اس نے مو بنایا تو کیا لگتی رہے
07:51میں نے سرد ہوتے ہاتھ رگڑ کر
07:52بغلوں میں دبائے اوف
07:53مجھے سنجیدہ ہوتے دیکھ کر وہ فوراں میرے نزدیک آ گئی تھی
07:57ارے آپ کو تو سچمچ سردی لگ رہے ہیں
07:59میں کپ کپاتے ہوئے بولا پلوشے میں مر جاؤں گا
08:01میں نے کہا میں دروازہ بند کر کے آگ جلاتا ہوں
08:04میں نے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی
08:06اور نتیجے میں مو کے بل گر گیا
08:08اسی وقت میری آنکھ کھل گئیں
08:09میں کسی انجان شخص کے دروازے پر
08:11معذور بھیکاری سے بھی بری حالت میں پڑا ہوا تھا
08:14بھیکاری بھی تو آواز دے لیتا ہے
08:16مجھ میں تو آواز دینے کی سکت بھی نہیں تھی
08:18میرا دماغ آہستہ آہستہ اندھیروں میں ڈوب رہا تھا
08:21آنکھیں بند ہونے پر میں
08:22اپنی جان حیات پلوشہ کی آغوش میں پہنچ پاتا
08:25اور جب سردی کی شدت سے
08:26جسم میں تکلیف کی لہر اٹھنے سے
08:28ہوش میں آتا تو میں اس بے رحم
08:30ماحول میں فسا دکھائی دیتا
08:32موت کو یقینی جان کر میں
08:34زیر لب کلمہ شہادت پڑھنے لگا
08:36مرتے وقت بس ایک ہی خوشی تھی
08:38کہ میری موت ایمان کی حالت میں ہو رہی تھی
08:40اس وقت بے ہوشی کے عالم میں
08:42مجھے بہت گہری کھائی دکھائی دے رہی تھی
08:44تیز بارش ہو رہی تھی اور میں
08:46لمحہ بلمحہ کھائی کی طرف پھسلتا جا رہا تھا
08:48اپنے ہاتھوں کے ناخن چکنی زمین میں
08:50گھسڑنے کے باوجود میں خود کو
08:52پھسلنے سے روک نہیں پا رہا تھا
08:54اور پھر میں ایک دم کھائی میں لڑک گیا
08:56خوش قسمتی سے آخری کوشش میں
08:58پتھر کا ایک ابھرا ہوا کنارہ
09:00میری انگلیوں کی گرفت میں آ گیا
09:01اسے پکڑ کر میں ہوا میں لٹکنے لگا
09:04نیچے دکھنے پر حد نگاہ تک
09:05کھائی کی تہہ نظر آئی
09:07میرے ہاتھ سے پتھر کا کنارہ چھوٹنے کی دیر تھی
09:09اس کے بعد یقیناً کھائی کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے ہی
09:12میں نے رب کو پیارا ہو جانا تھا
09:14میں نے اوپر اٹھنے کی کوشش کی
09:15مگر میرے بازوں میں جان ہی ختم ہو گئی تھی
09:17موت لمحہ بلمحہ
09:19مجھے نگلنے کے لیے آگے بڑھ رہی تھی
09:21پتھر کا کنارہ میرے ہاتھ سے چھوٹنا ہی چاہتا تھا
09:24کہ اچانک ایک جانب سے پلوشہ
09:25بھاگتی ہوئی نمدار ہوئی
09:27اگلے ہی لمحے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے
09:29اس نے میرے دائیں ہاتھ کو اپنے ملائم ہاتھ میں جکڑ لیا
09:32دونوں ایڈیاں چکنی زمین میں گاڑ کر
09:34اس نے پورا زور لگایا
09:35اور میں آہستہ آہستہ اوپر آنے لگا
09:37تھوڑی دیر بعد میں حامتہ ہوا اس کے پہلوں میں تھا
09:40اس نے شکوا کیا مجھے آواز نہیں دے سکتے تھے
09:42اگر مجھے آنے میں تھوڑی دیر ہوتی
09:44تو آپ تو گئے تھے
09:45میں نے کہا میرا حلق خوشک تھا
09:47مجھ سے آواز نہیں نکل رہی تھی
09:48وہ بولی ضروری تو نہیں تھا کہ آپ موہ سے پکارتے
09:51مجھے کسی اور طرح بھی متوجہ کر سکتے تھے
09:53اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میں کیسے زندہ رہ پاتی
09:56میں مسکر آیا گویا مجھ سے زیادہ اپنی موت کی فکر ہے
09:59وہ بپھرتے ہوئے بولی ہاں ہاں اپنی موت کی فکر ہے
10:02میں نے کہا خفا نہیں ہوتے
10:03ایسی حالت میں میں تمہیں کیسے متوجہ کرتا
10:06وہ موہ بناتے ہوئے بولی آپ کے پاس بستوال بھی موجود تھا
10:09ہوائی فائر کر لیتے
10:10میں نے افسوس بھرے انداز میں سر ہلایا
10:12اس کا تو خیال نہیں آیا
10:13وہ مجھے چڑاتے ہوئے کھڑی ہو گئی خیال ہی نہیں آیا
10:16اسے یہ بھول گیا تھا کہ زمین کتنی چکنی اور فسلن زدہ ہے
10:19کھڑے ہوتے ہی اس کا پاؤں فسلا اور وہ کھائی میں گرتی چلی گئی
10:22میں نے ایک دم سے اسے گرفت میں لینا چاہا
10:24مگر کھائی کی اندھیرے اسے نگل گئے تھے
10:26میری سمات میں بس اس کی آخری چیخ ہی گونچتی گئی
10:29وہ میرا نام پکارتی رہی
10:31اور اس کے ساتھ ہی مجھے ہوش آ گیا
10:32اس حالت میں بھی اس بھیانک سپنے سے میرا دل دھک دھک کر رہا تھا
10:36میرے ہونٹوں اور زبان پر فوراں برے خواب کے شرط سے بچنے کی دعا آ گئی
10:40اور اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں پلوشہ کی تجویز گونچی
10:43آپ کے پاس پسٹول تو موجود ہے
10:45آپ ہوائی فائر بھی کر سکتے ہیں
10:46گویا وہ میرے خواب میں بھی مجھے اس صورتحال سے نمٹنے کی تجویز بتانے آئی تھی
10:51میں کوشش کر کے اپنا بازو کمر کی طرف لے گیا
10:53جہاں میں نے نیفے میں گلوک نائنٹین اڑسا ہوا تھا
10:56پسٹول کو پکڑنے کے لیے مجھے دستانہ اتارنا پڑا
11:00میری انگلیاں بس تھوڑی تھوڑی حرکت کر پا رہی تھی
11:02بمشکل پسٹول کا دستہ پکڑ کر میں نے پسٹول کو باہر کھینچا
11:05اب پسٹول کو کوک کرنے کا مشکل مرحلہ درپیش تھا
11:09بڑی مشکل سے میں نے دستانے والے ہاتھ کو پسٹول کے اوپر ٹیک کر
11:12اس کی سلائٹ کو پیچھے کی جانب کھینچا
11:14مگر کامیاب نہ ہو سکا
11:16دو تین منٹ کی کوشش کے بعد اچانک مجھے یاد آیا
11:18کہ میں نے کلیشن کوف کوک کر کے کندھے سے لٹکائے ہوئی تھی
11:21لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ کلیشن کوف تو میں چند گز پیچھے پھینک آیا تھا
11:25اور وہاں تک پہنچنا میرے لیے ممکن نہیں تھا
11:28میں دوبارہ پسٹول کے ساتھ مغز ماری کرنے لگا
11:30چند لمحوں کی کوشش کے بعد سلائٹ ہلکا سا پیچھے کو کھسکی
11:33میں نے ہاتھ پر مکمل زور دے دیا
11:35اور پھر وہ مشکل مرحلہ بھی تیہ ہو گیا
11:38سلائٹ مکمل پیچھے دھکیل کر میں نے اس پر سے ہاتھ اٹھایا
11:41سلائٹ ایک جھٹکے سے آگے بڑھی اور پسٹول کوک ہو گیا
11:44میں نے ٹرگر میں شہادت کی انگلی ڈال کر
11:46پسٹول کی بیرل کا رخ سامنے کی طرف کرتے ہوئے ٹرگر کھینچ لیا
11:50دھماکے کے ساتھ میرے ہاتھ کو چھٹکا لگا
11:52گولی فائر ہونے کی آواز سے ماحول گونج اٹھا تھا
11:55میں نے ایک گولی پر اکتفا نہیں کیا تھا
11:57دوسری تیسری اور چوتھی بار بھی ٹرگر دبا دیا
11:59ہر بار مجھے اتنا ہی زور لگانا پڑا
12:02جتنا کہ ایک گہرے کوئے سے پانی کا بڑا ڈول کھینچنے والے شخص کو لگانا پڑتا ہے
12:06چوتھی بار ٹرگر دبا کر میں نے بے دم ہو کر اپنی کوہنیوں پر سر ٹیک دیا
12:11اس کے بعد میری حمد جواب دے گئی
12:13کئی لمحے بیت گئے یا شاید مجھے ہی لگ رہا تھا
12:15کہ وقت تھم گیا ہے
12:16دروازے پر آہٹ ہوئی کسی نے کچھ پکارا تھا
12:19مگر شاید میری سمات نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا
12:22پھر میری آنکھوں نے روشنی کی جھلک دیکھی
12:24اور میں نے آنکھیں بند کر لیں
12:25دو ہاتھوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر جھنجوڑا
12:28اور میرے کانوں کے قریب ایک نسوانی آواز آئی
12:30ہوش میں آؤ اٹھو
12:32شاید وہ عورت مجھے اٹھا نہیں پا رہی تھی
12:34میں زیر لب بڑھ بڑھ آیا
12:35میں حرکت نہیں کر سکتا
12:36مجھے مدد بھی ملی تھی
12:38تو ایک کمزور عورت کی جو مجھے اٹھا نہیں سکتی تھی
12:40وہ دروازے کی طرف مو کر کے زور سے چلائے
12:43رنہ بھائی کو ساتھ لے آؤ یہاں
12:45چند لمحوں کے بعد
12:46مجھے قریب سے ایک لڑکی کی آواز سنائی دی
12:48جی باجی
12:49شاید وہ اس کی چھوٹی بہن ہو
12:50وہ بولی تم دونوں اس کی ٹانگوں کو پکڑو
12:53میں بازو تھامتی ہوں
12:54یہ بے ہوش ہے
12:55اگر کچھ دیر ایسے پڑا رہا تو بچے گا نہیں
12:57اس مرتبہ ایک لڑکی کی آواز آئی
12:59ٹھیک ہے باجی
12:59اور پھر میرا جسم ذرا سا زمین سے بلند ہوا
13:02اور وہ مجھے اندر لے گئے
13:03طویل سہن عبور کر کے وہ ایک کمرے میں داخل ہوئے
13:06کمرے میں انگیٹھی روشن تھی
13:08ایک دم مجھے لگا کہ میں جنت میں پہنچ گیا ہوں
13:10رنہ جلدی سے خالی چارپائی پر بستر بچھاؤ
13:13اور پیٹی سے موٹے لخاف نکالو
13:15لڑکا سادت مندی سے بڑی بہن کے حکم پر عمل کر رہا تھا
13:18وہ چھوٹے بھائی کو مخاطب ہوئی سمرخان
13:20بھاگ کر باورچی خانے سے چھوڑی اٹھاؤ
13:22اور اس کا گیلا اور اکڑا ہوا لباس
13:24کاٹ کر جسم سے اتارو
13:26کسی مرد کی تکلیف میں ڈوبی ہوئی آواز میرے کانوں میں پڑی
13:29کون ہے گلگارے بیٹی
13:30وہ بولی بابا جان کوئی اجنبی ہیں
13:32فائر کی آواز سن کر میں باہر نکلی
13:34تو یہ دروازے پر بے سدھ پڑا تھا
13:36شاید ہمیں متوجہ کرنے کے لیے
13:37اس نے فائر کیے تھے
13:38باپ کو تفصیلی جواب دیتے ہوئے بھی
13:40وہ مسلسل میرا کوٹ اتارنے کی کوشش کر رہی تھی
13:43مگر کوٹ بالکل اکڑ گیا تھا
13:45اس وقت اس کا بھائی سمرخان بھاگتا ہوا وہاں پہنچا
13:48یہ نباجی
13:49اس نے یقیناً بہن کی طرف چھوری بڑھائی تھی
13:51چھوٹے بھائی کے ہاتھ سے چھوری لے کر
13:53اس نے جلدی سے میرا کوٹ کاٹنا شروع کر دیا
13:55کوٹ کے بعد اس نے قمیز اور بنیان بھی کاٹ کر
13:57میرے جسم سے الہدہ کی
13:58اور پھر ایک خوش کپڑا میرے جسم پر ڈال دیا
14:01میری جان بچانے کے لیے وہ جس حوصلے کا مظاہرہ کر رہی تھی
14:04اتنی جررت کم ہی لڑکیوں کا خاصہ ہوتی ہے
14:06جب تک وہ لباس کاٹ کر میرے جسم سے الہدہ کر دی
14:19نے مل کر مجھے اٹھایا اور نرم بستر پر لٹا دیا
14:21اس کے ساتھ ہی گلگارے بی بی نے مجھے موٹا لحاف اڑا دیا
14:25خوشگوار حدت میری رگوں میں اترنے لگی تھی
14:27چھوٹے بھائی کو بولی سمرخان انگیٹھی میں اور لکڑیاں ڈالو
14:30اور چھوٹی بہن کو بولی دودھ میں حلدی ڈال کر گرم کر کے لے آو
14:34وہ دونوں جی باجی کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئی
14:36وہ خود لحاف کے کونوں کو موڑ کر میرے جسم کے نیچے دینے لگی
14:39تاکہ لحاف مکمل بند ہو جائے
14:41اور ہوا کا گزر بالکل ممکن نہ رہے
14:43میرے جسم میں اٹھنے والا درد تاحال پہلے کی طرح باقی تھا
14:47گو گلگارے بی بی نے بہت اچھے طریقے سے مجھے سنبھالا تھا
14:50میرا گیلا لباس اتار کر مجھے لحاف اڑانے کی بجائے
14:53اگر وہ براہ راست مجھے انگیٹھی کی قریب ڈال دیتی
14:56تو بلا شبہ میرے جسم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا
14:59تھنڈ لگنے والے شخص کو یوں ایک دم آگ کے قریب لے جانا بھی غلط ہے
15:03البتہ مجھے لحاف اڑا کر انگیٹھی کی آگ کو زیادہ سے زیادہ دہکانا بہت مناسب تھا
15:09یقیناً تھنڈے علاقے سے تعلق رکھنے کے باعث
15:11اسے معلوم تھا کہ تھنڈ کا شکار ہونے والے شخص کو کیسے سنبھالا جاتا ہے
15:15میں نے آہستہ آہستہ ہاتھوں کی انگلیوں کو حرکت دینے کی کوشش کی
15:18میرے پاؤں ابھی تک سنتے
15:20البتہ نچلے دھڑ میں شدید درد ہو رہا تھا
15:23اور ایسا ہونا میرے لئے تسلی کا باعث تھا
15:25درد کا احساس ہونے کا مطلب یہی تھا کہ میرا جسم ٹھیک تھا
15:28میں پاؤں کی انگلیوں کو حرکت دینے کی کوشش کرنے لگا
15:31آہستہ آہستہ میرے پاؤں میں بھی درد کا احساس جاگنے لگا
15:34میرے کانوں میں اس مرد کے کراہنے کی آواز پہنچی
15:37غالباً وہ بھی کسی قسم کی تکلیف میں مبتلا تھا
15:40اس وقت چھوٹی بہن دودھ میں حلدی ملا کر پہنچ گئی
15:43میرے چہرے سے تھوڑی سی رضائی کھسکا کر گلگارے بیبی نے
15:46میرا موہ باہر نکالا
15:47اور میرے سر کے نیچے تکیا رکھ کر
15:49ایک بڑے چمچ سے حلدی ملا دودھ مجھے پیلانے لگی
15:52اس نے مجھے رضائی سے باہر نکالنے کی کوشش نہیں کی تھی
16:04دودھ پلا کر اس نے میرا چہرہ دوبارہ ڈھاپ لیا
16:07چھوٹی بہن کو بولا کہ سمر خان کو ساتھ لے جا کر
16:10ڈربے سے وہ بڑا چوزہ پکڑ کر لاؤ
16:12چھوٹی بہن نے پوچھا کیوں باجی
16:13وہ بولی اسے زبا کر کے یخنی بنانی ہے
16:16جب تک اسے اندر سے گرمی نہیں پہنچے گی
16:18اس کی سردی دور نہیں ہوگی
16:19اچھا باجی کہہ کر وہ سمر خان کو ساتھ لے کر چلی گئی
16:23میرا دل اس کے لیے شکر گزاری کے احساسات سے بھر گیا تھا
16:26وزیرستان کے لوگ غریب ہونے کے باوجود بہت زیادہ مہمان نواز تھے
16:30ایک اجنبی کی اتنی زیادہ خدمت اور دیکھ بھال
16:33یقیناً مہمان نوازی کا مو بولتا ثبوت تھی
16:35چوزہ اس نے خود ہی زبا کیا تھا
16:37میں بس سماتوں ہی سے ان کی حرکات کا اندازہ لگا رہا تھا
16:41اس طوران ان کے باپ کی کراہتی ہوئی آواز بھی میرے کانوں میں پڑ جاتی
16:44وہ مسلسل نہیں کراہ رہا تھا
16:46بلکہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کروٹ تبدیل کرتے
16:49یا ہلتے جلتے وقت اسے تکلیف پہنچتی ہے
16:51تھوڑی دیر بعد ہی وہ میرے لیے یخنی بنا کر لے آئی
16:54کالی مرچ اور نمک کے علاوہ اس نے اس میں کچھ نہیں ڈالا تھا
16:57ایک مرتبہ پھر اس نے میرے چہرے سے لحاف ہٹا کر
17:00مجھے اپنے ہاتھوں سے یخنی پلائی
17:02دیسی چوزے کی یخنی پیتے ہی آہستہ آہستہ
17:04میرے پاؤں کی انگلیوں میں بھی درد کا احساس ہونے لگا
17:07جو اس بات کا مذر تھا کہ میرے پاؤں پہلے سے بہتر ہو رہے تھے
17:10ہاتھوں کا درد تو ختم ہو چکا تھا
17:12میں بار بار مٹھیاں بھیج کر ہاتھوں کو ورزش کرنے کی کوشش کر رہا تھا
17:16ٹانگوں کا درد بھی آہستہ آہستہ زائل ہو رہا تھا
17:19میری سماعت میں لکڑیوں کی کھٹ پٹانے لگی
17:21یقیناً وہ انگیٹھی میں مزید لکڑیاں ڈال رہی تھی
17:24چھوٹے بہن بھائی کو بولی
17:25تم دونوں اب اپنے کمرے میں جا کر سو جاؤ
17:27ان دونوں نے کہا جی باجی
17:29لگتا تھا دونوں بہن بھائی کے نزدیک باجی کا حکم حرف آخر ہے
17:32اس مرتبہ وہ باپ کو مخاطب ہوئی بابا جان قہوہ پینگے
17:35وہ بولی نہیں بیٹی بس آرام کرو
17:37اس نے جلدی سے کہا تھوڑا سا پی لینا
17:39یو بی مہمان کے لیے بنانے لگی ہوں
17:41پہلے حلدی ملا دودھ پھر یخنی اور اب گرم قہوہ
17:45وہ مسلسل گرم مشروبات میرے میدے میں انڈیل کر
17:47سردی کے خلاف میری قوت مدافعت کو بڑھا رہی تھی
17:50ہمیں بھی سردی سے نمٹنے کے لیے جو طریقے پڑھائے گئے تھے
17:53ان میں متاثرہ شخص کے جسم کو گرم کرنے کے لیے گرم ماحول
17:56اور لباس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ گرم مشروبات پلانے کی ہدایت کی گئی تھی
18:00اس کے باپ نے کہا ٹھیک ہے بیٹی
18:02اور اس کے قدموں کی آواز کمرے سے باہر جانے لگی
18:05اب میرے بازووں میں بھی جان پڑ گئی تھی
18:07ٹانگوں کا درد بھی مدھم ہونے لگا تھا
18:10اور پاؤں بھی حرکت کرنے لگے تھے
18:12البتہ دونوں پاؤں اور پنڈیوں میں ہلکا ہلکا درد ضرور محسوس ہو رہا تھا
18:16جیلے بابا جان
18:17وہ شاید قہوے کی پیالی اپنے باپ کے حوالے کر رہی تھی
18:20کراہتی ہوئی آواز میں میں نے شکریہ کی الفاظ سنے
18:23اور پھر اس کے قدموں کی آواز میری چارپائی کی طرف بڑھ گئی
18:26پہلے کی طرح ہی اس نے مجھے قہوہ پلایا
18:29اس کا اور میرا حساب بلکل ڈاکٹر اور مریض کا ستھا
18:32اس نے مجھے پوچھا اب کیسا محسوس ہو رہا ہے
18:34میں نے کہا پہلے سے بہتر
18:36اللہ پاک آپ کو اور آپ کے گھرانے کو دنیا اور آخرت کی عزت اور کامیابی دے
18:40آمین کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبصم مبھرا
18:44میرے چہرے کو ایک بار پھر لحاف سے ڈھام کر وہ کمرے سے نکل گئی
18:47واپسی پر اس نے میرے چہرے پر سے لحاف اتارے بغیر مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا
18:51سرہانے کے ساتھ کپڑوں کا جوڑا رکھا ہے
18:53جو ہی خود کو اس قابل سمجھو گے کپڑے پہن لینا
18:56اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے آواز دے لینا
18:59میں ساتھ والے کمرے میں ہوں
19:00میں نے لحاف مو سے اتارے بغیر دھیمے لہجے میں کہا
19:03بہت شکریہ میری بہن
19:04اس کے جانے کے بعد بھی میں اسی طرح لیٹا رہا
19:07قریباً گھنٹے بھر بعد ایک بار میری سماتوں میں
19:09قدموں کی آواز گنجی
19:11جو انگیٹھی کے ساتھ جا کر رک گئی
19:13لازمان وہ انگیٹھی میں لکڑیاں ڈالنے آئی تھی
19:15لکڑیاں ڈال کر وہ واپس لوٹ گئی
19:17میں اب بہت بہتر محسوس کر رہا تھا
19:19لحاف کا کونہ الٹا کر میں نے باہر جہاں کا
19:22وہ کمرہ کافی بڑا تھا
19:23کمرے کے ایک کونے میں درمیانی سی انگیٹھی لگی ہوئی تھی
19:26جس میں جلنے والی آگ کی تپش سے
19:28کمرے میں خوشکوار حدد پھیلی ہوئی تھی
19:30انگیٹھی کے مخالف کونے میں لالٹین لٹکی تھی
19:33جس کی زرد روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی
19:35لالٹین کے نیچے ایک چوڑی چارپائی پڑی تھی
19:38جس پر ایک ادھےڑ عمر شخص لیٹا ہوا تھا
19:40سر کے علاوہ اس کا باقی جسم موٹے لحاف میں پوشیدہ تھا
19:43اس کے چہرے پر گھنی داری تھی
19:45وہ آنکھیں کھولے جانے چھت کی کڑیوں میں کیا تلاش کر رہا تھا
19:48اس کی چارپائی کے علاوہ بھی کمرے میں تین چارپائیاں رکھی تھی
19:51جن میں سے ایک پر تو میں لیٹا ہوا تھا
19:54اور دو چارپائیاں خالی پڑی تھی
19:55ان پر بستر بھی نہیں تھے
19:57ایک سرسری نظر کمرے میں دوڑا کر
19:59میں نے سرہانے کے ساتھ رکھے کپڑے اٹھائے
20:01اور لحاف کے اندر ہی تبدیل کرنے لگا
20:03دودھ اور یخنی سے میری بھوک کافی حد تک مٹ گئی تھی
20:06مگر اب آہستہ آہستہ دوبارہ بھوک محسوس ہونے لگی
20:09سردی میجوں بھی بھوک زیادہ لگتی ہے
20:11اور مجھے تو کھانا کھائے چوبیس گھنٹے ہونے کو تھے
20:13لیکن یہ مسئلہ تھا کہ میں گلگارے بی بی کو نین سے اٹھا کر کیسے کہتا
20:17کہ مجھے بھوک لگی ہے کھانے کو کچھ لاؤ
20:19پہلے بھی اس نے اتنا کچھ کیا تھا
20:21اور اب وہ غریب سو رہی تھی
20:22میں نے اسے آواز نہ دینے کا فیصلہ کر لیا
20:24مگر میرے اس فیصلے پر اس نے خود ہی پانی پھیر دیا
20:27وہ دوبارہ انگیٹھی میں لکڑیاں ڈالنے آئی تھی
20:29مجھے جاکتے پا کر وہ سر پر دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی
20:32انگیٹھی میں لکڑیاں ڈال کر وہ لوٹی
20:34اور میرے قریب رکھتے ہوئے پوچھنے لگی
20:36کسی چیز کی ضرورت ہے
20:37میں نے کہا نہیں شکریہ
20:38پھر وہ بولی بھوک تو نہیں لگی
20:40میں نے کہا کوئی خاص نہیں آپ کو زہمت ہوگی
20:43یہ کہتے ہوئے بھی اس کے جانب دیکھنے سے گریس کر رہا تھا
20:46وہ بولی زہمت کیسی ابھی لاتی ہوں
20:48اور وہ میرے لیے کھانا لینے چلی گئی
20:50چینل کو سبسکرائب کیجئے اور بیل آئیکن پر کلک کیجئے
20:58تاکہ آپ کو تمام ویڈیوز فوراں ملتی رہیں

Recommended