Sniper series episode 81 a story full of thrill and suspense operation in waziristan most deadly operation in waziristan
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
Category
😹
FunTranscript
00:00موسیقی
00:06میں ایک پاکستانی سنائپر
00:09کہانی کی طرف جانے سے پہلے آپ سے گزارش ہے کہ چینل کو سبسکرائب کیجئے اور ویڈیو کو لائک کیجئے
00:19آئیے کہانی کی طرف چلتے ہیں
00:21صبح صویر نماز کے بعد ناشتے سے فارغ ہو کر میں اور کمانڈر عبدالحق جانے کے لیے تیار تھے
00:29شڑک تک جانے میں ہمیں دو تین گھنٹے لگ گئے تھے
00:31وہاں سے ہمیں ارگون اور سارو بھی تک گاڑی مل گئی تھی
00:34وہ گاڑی مجاہدین ہی کی تھی
00:36آگے کا راستہ پیدل تائے کرتے ہوئے ہم پکتی کا پہنچے
00:39کیونکہ میرا ارادہ کچھ خریداری کرنے کا تھا
00:41قریباً دو ہفتے پہلے میں چچا شمریز کے گھر تحائف بھیجوا چکا تھا
00:45لیکن خود اسی راستے سے جانے کا ارادہ کیا
00:48تو خالی ہاتھ جانا مناسب نہ لگا
00:50رات ہم نے شہر میں گزارنے کی بجائے آگے جانے کو ترجیح دی تھی
00:53صبح کے قریب ہم اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے تھے
00:56ناشتہ وغیرہ کر کے ہم آرام کرنے لیٹ گئے
00:58زہر کی نماز پڑھ کر میں جانے کے لیے تیار تھا
01:01کمانڈر عبدالحق نے بھی چھٹی جانا تھا
01:03اس لیے وہ بھی میرے ساتھ چل پڑا
01:05جن رستوں کو میں نے پچھلی بار بچا کر بھاگتے ہوئے تائے کیا تھا
01:08ان رستوں کو پیدل عبور کرتے ہوئے اچھا لگا
01:11عشاء کے قریب ہم غزنی خیل گاؤں کے مزافات سے گزر رہے تھے
01:15رات گزارنے کے لیے وہاں کے سردار کی بیٹھک ایک بہترین چناو تھا
01:19میں کمانڈر عبدالحق کو ساتھ لے کر اسی جانب بڑھ گیا
01:21سیلاب خان مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا
01:24اس نے فوراں ہی ہمارے لیے خصوصی کھانا تیار کرنے کا حکم دے دیا
01:27کمانڈر رشید جان
01:28الفت بادشاہ
01:29مشر خان
01:30نوشاد گل
01:31گلریز وغیرہ
01:31وہاں اکٹے ہو گئے تھے
01:33ان سے رخصت ہونے کے بعد میرا شلوبر قبیلے سے جو ٹاکرا ہوا تھا
01:36اور اس کے نتیجے میں شلوبروں کے زخمی اور قتل ہونے والے افراد کی خبر ان تک بھی پہنچی تھی
01:41میرے ساتھ ان کے رویے میں پہلے سے زیادہ عقیدت جھلک رہی تھی
01:45میں نے سردار سیلاب کو بتایا کہ ان کے قبیلے میں کوئی غددار موجود ہے
01:49جس نے میرے بارے میں شلوبروں کو اطلاع فراہم کی تھی
01:52سردار سیلاب خان نے سر ہلاتے ہوئے کہا ایک نہیں دو تھے
01:55دونوں کے سر کاٹ کر شلوبر قبیلے کو بھیجوا دیئے ہیں
01:58البتہ ان کے دھڑ یہیں دفن کرنے پڑے
02:00اور سر کے بغیر جنازہ ہو سکتا ہے یا نہیں
02:02اس مسئلے کے بارے میں چونکہ ہمیں کوئی خاص معلومات نہیں تھی
02:05اس لیے ہم جنازہ نہیں پڑ سکے
02:07میں نے کہا دھڑ کے بغیر جنازہ ہوتا ہے یا نہیں
02:10یقینا یہ مسئلہ شلوبروں کو بھی معلوم نہیں ہوگا
02:13اور انہوں نے بھی یہی حل سوچا ہوگا جو آپ لوگوں نے سوچا ہے
02:16کمانڈر عبدالحق نے لکمہ دیا
02:17خدداروں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے
02:20کہ انہیں نہ تو اپنے اپنا تسلیم کرتے ہیں
02:22اور نہ غیر ہی اپنانے کو تیار ہوتے ہیں
02:24وہ کیا کہاوت ہے دھوبی کا کتہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا
02:27اسی گپ شپ کے دوران کھانا تیار ہو گیا تھا
02:30کھانا کھانا کے بعد بھی سلاب خان اور باقیوں نے ہمیں اتنی جلدی سونے نہیں دیا تھا
02:35ان کی شلوبروں کے ساتھ ابھی تک سلہ نہیں ہوئی تھی
02:37اس زمن میں دو تین جرگے ہو چکے تھے
02:39اب آخری اور حتمی جرگاہ ایک ہفتے بعد ہونا تھا
02:43میرے اپنے اتنے مسائل تھے کہ میں دوسروں کے معاملات کی جانب توجہ نہیں دے سکتا تھا
02:47وہ اپنے قبیلے کی لڑکی کو پھانسی دیتے
02:49اس کا سر قلم کرتے یا اس کے علاوہ ان کا کوئی اور منصوبہ ہوتا
02:53مجھے اس بارے میں جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی
02:55اس لیے ان کی لڑائی کے بارے میں اجمالاً پوچھ کر میں نے گفتگو کا رخ بدل دیا تھا
02:59رات کو دیر سے سونے کے باوجود ہم صبح کی نماز اور ناشتے سے فارغ ہو کر جانے کے لیے تیار تھے
03:05سردار سلاب خان نے اپنے قبیلے کے درجن بھر آدمی میری حفاظت کے پیش نظر میرے ساتھ روانہ کرنی چاہے
03:11مگر میں نے منع کر دیا
03:12یوں بھی کمانڈر عبدالحق شلوبر قبیلے کے ساتھ میری صلاح کی بات کر چکا تھا
03:16سب سے بڑھ کر وہ میری واپسی سے بھی ناواقف تھے
03:19تو مجھے نقصان پہنچانے کا کیا سوچتے
03:21اور اتنا تو وہ بھی جانتے تھے کہ میرے خلاف کوئی کاروائی کرنے کا مطلب
03:25بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف تھا
03:27مجاہدین اتنے بھی کمزور نہیں تھے کہ ایک گاؤں پر قابو نہ پاسکتے
03:31آتے وقت رستے پر برف پڑی تھی
03:33جبکہ اب اپریل کا اختتام تھا
03:35برف بالکل ختم ہو گئی تھی
03:37سردی کی شدت میں پہلے جتنا زور باقی نہیں تھا
03:40سپہر ڈھلے ہم گلگارے کے مکان پر پہنچ گئے تھے
03:43میں نے ان کے لیے خریدے ہوئے توفے ان کے حوالے کیے
03:45وہ رات ان کے گھر گزاری
03:47چچا شمریز کو افغانستان میں اپنی آبیتی سنائی
03:50اور اگلے روز میں کمانڈر عبدالحق کے ساتھ
03:52اس رستے پر دوبارہ گامزن ہو گیا
03:54کہ جس رستے پر میں نے برف کا عذاب چھلا تھا
03:57اسے میں نے وہ سارا واقعہ بتایا
03:59اور ساتھ ہی یہ کہ گلگارے نے کس طرح میری جان بچائی تھی
04:02وہ بے ساختہ کہہ اٹھا واقعی ایسی لڑکی
04:04عزت اور احترام کے قابل ہیں
04:05دوپہر کو ایک چشمے کے کنارے بیٹھ کر
04:08ہم نے کھانا کھایا
04:08کھانے اور گرم قہوے سے لطفندوز ہونے کے بعد
04:11ہم نے زہر کی نماز پڑھی اور دوبارہ کمر باند لی
04:14اور پھر رات کو بھی روکے بغیر چلتے رہے
04:16صبح کی آزان کے وقت ہم انگور اڈے پہنچ گئے تھے
04:19کمانڈر نصراللہ خوج الخیل نے
04:21ہمیں بڑے خلوص سے خوش آمدید کہا تھا
04:23ساری رات چلنے کی وجہ سے ہم تھکن محسوس کر رہے تھے
04:26لیکن ہمارا ارادہ آرام کرنے کا بالکل نہیں تھا
04:28چچا نصراللہ کے پاس ناشتہ کر کے ہم گپ شپ کرنے لگے
04:31ان کے پاس ہمارے لیے کوئی خوش خبری موجود نہیں تھی
04:34کمانڈر اسلام کے بارے میں معلوم ہوا
04:36کہ وہ پلوشہ اور سردار کے بارے میں پچھ کچھ کرنے آیا
04:39اس کے بعد ان کی کوئی خبر نہیں تھی
04:40مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں
04:43البتہ کمانڈر عبدالحق نے مجھے زبردستی چلنے کا کہا تھا
04:46اس کا کہنا تھا کہ میں ایک بار اپنے سینئر سے ملاقات کروں
04:49مجھ پر لگے الزامات کے ثبوت ملنے کے بعد
04:51میرے لیے کیا تیع کیا جانا ہے
04:53اس کا سامنا کرلوں
04:54اس کے بعد میں آرام سے پلوشہ کو تلاش کر سکتا ہوں
04:57مجھے اس کی بات ماننا پڑی
04:58اور ہم چچا نصراللہ سے اجازت لے کر ویگن اڈے کی طرف بڑھ گئے
05:02ان سے لی ہوئی کلیشن کوف میں نے ان کے پاس ہی چھوڑ دی تھی
05:05کیونکہ وہ میں اپنے ساتھ تو نہیں لیے جا سکتا تھا
05:07ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ کر کمانڈر عبدالحق
05:09مجھ سے الودہ ہوتے وقت عجیب سے لہجے میں بولا
05:12رشان بھائی مجھے معاف کر دینا
05:14میرے چہرے پر حیرانی بھری مسکرہ ہڈو بھری کیا مطلب
05:17وہ گلوگیر لہجے میں بولا
05:18ویسے ہی بس دانستہ یا نادانستگی میں کوئی غلطی ہو جاتی ہے نا
05:23میں اس کی پیٹ تھپ تھپاتے ہوئے بولا
05:25وہ تو ہر کسی سے ہو جاتی ہے
05:26شاید مجھ سے بھی ہوئی ہو
05:27ویگن اڈے سے اس نے پشاور کی گاڑی پکڑی
05:30اور میں راولپنڈی روانہ ہو گیا
05:31مجھے معلوم تھا کہ گھر جا کر میں نے پھس جانا ہے
05:34اور گھر والوں نے پلوشہ کے بارے میں پوچھ پوچھ کر
05:36میرے دماغ کی لسی بنانی ہے
05:38اس لیے بہتر یہی تھا کہ میں پہلے اورنگزیب صاحب سے ملاقات کرتا
05:42دیرہ اسمائل خان سے راولپنڈی تک میں اپنی نیند پوری کرتا رہا
05:45صبح کی آزان کے وقت میں پیرودھائی موڑ پر اتر رہا تھا
05:48میرا موبائل فان وغیرہ چونکہ اورنگزیب صاحب کے باس ہی رہ گیا تھا
05:52اس لیے مجھے ایک دکاندار سے فان مانگ کر اورنگزیب صاحب کو کال کرنا پڑی
05:56وہ سویا ہوا تھا
05:57اس کی نیند میں ڈوبی ہوئی ہیلو میرے کانوں میں گونجی
06:00میں نے فوراں کہا سلام علیکم سر
06:01میں زیشان بات کر رہا ہوں اور اس وقت پیرودھائی موڑ پر کھڑا ہوں
06:05ان کی آواز سے غنود کی غائب ہو گئی
06:07والیکم السلام مجھے بیس منٹ لگیں گے
06:09میں وہیں پر ان کا انتظار کرنے لگا
06:11وہ بتائے گئے وقت سے دو منٹ پہلے پہنچ گئے تھے
06:14پرتپاک انداز میں مجھ سے چھاتی ملاتے ہوئے انہوں نے میری پیٹھ تھپ کی
06:17اور میں ان کے ساتھ روانہ ہو گیا
06:19کار آگے بڑھاتے ہی انہوں نے سوال کیا
06:21ویسے وہ ثبوت تمہیں خود لانے چاہیے تھے
06:23میں نے کہا بس سر ایک چھوٹے سے کام کے لیے وہیں رہ گیا تھا
06:26اس لیے کسی اور کے ہاتھ بھیجوانے پڑے
06:28وہ مسکرائے تمہارا چھوٹا کام کسی کے سر میں گولی اتارنا ہی ہو سکتا ہے
06:33میرے لبوں پر فیکی مسکرہ ہٹنا مدار ہوئی کچھ ایسا ہی سمجھے سر
06:36وہ بولا تمہاری کہانی تو تفصیل سے سنوں گا
06:39فیلحال یہ سن لو کہ تم پر لگے الزامات تو صاف ہو گئے ہیں
06:42لیکن مجھے بے ہوش کر کے تم نے بھاگنے کی جو غلطی کی ہے
06:45اس کا مقدمہ ابھی تک باقی ہے
06:47یہ کہتے ہوئے وہ کھل کھلا کر ہس پڑے
06:49میں ترکی بہ ترکی بولا ایک فیلڈ ایجنٹ سے ایسی چھوٹی موٹی غلطیاں تو ہوتی رہتی ہیں سر
06:54وہ بولا ہاں مگر سزا کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے نا
06:56انہوں نے کار اپنے گھر کی طرف موڑ دی
06:58ناشتہ کروا کر انہوں نے مجھے آرام کا مشورہ دیا
07:01آرام دے بستر پاتے ہی میں سو گیا
07:03مسلسل دو راتوں سے مجھے بستر نصیب نہیں ہوا تھا
07:06دوپہر کے گیارہ بجے جگہ کر انہوں نے مجھے تیار ہونے کا حکم دیا
07:09میرے ناپ کی وردی اور بوٹوں وغیرہ کا بندوبست کر دیا تھا
07:12بارہ بجے مجھے کرنل احمد کے سامنے پیش کیا گیا
07:15کرنل صاحب کو ساری بات اور انگزیب صاحب تفصیل سے بتا چکے تھے
07:19میرے سابقہ کارناموں کو دیکھتے ہوئے
07:21اور میری مجبوری کو مد نظر رکھ کر انہوں نے مجھے خالی وارننگ دینے پر اقتفاق کیا
07:25اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے واپس اپنی یونٹ میں بھیجنے کا حکم بھی دے دیا
07:29اتنی آسانی سے جان چھوٹنے پر میں نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا
07:33البتہ میری اپنی یونٹ کے کرنل صاحب تک بھی یہ تمام باتیں تحریری صورت میں بھیجوا دی گئی تھی
07:38نامعلوم ان کا کیا فیصلہ ہوتا
07:40اور مجھے لگ بھی یہی رہا تھا کہ کرنل احمد نے میری سزا وغیرہ کا تائن
07:44میری یونٹ کے کرنل صاحب کی سوابدید پر چھوڑ دیا ہے
07:47آرمی میں ایک یونٹ سے دوسری یونٹ میں تبدیلی پر چند دن کی چھوٹی ضرور ملتی ہے
07:52جسے جوائننگ ٹائم کہتے ہیں
07:53کرنل صاحب کے دفتر سے باہر آتے ہی میں اورنگزیب صاحب کو مخاطب ہوا
07:57سر موف آرڈر پر جتنی زیادہ چھوٹی دے سکتے ہیں دے دینا
08:01وہ مستفسر ہوئے دے دوں گا مگر کیا کرنا ہے لمبی چھوٹی کا
08:04میں صاف گوئی سے بولا سر میری بیوی پلوشہ کا اب تک پتہ نہیں چلا
08:08اس کی تلاش میں جانا ہے
08:09یوں بھی اورنگزیب کے ساتھ میرا تعلق سینئر جونئر کے علاوہ بھی کچھ بن چکا تھا
08:13اس لیے میں ان سے کوئی بات خفیہ نہیں رکھنا چاہتا تھا
08:16ان کے چہرے پر حیرانی ابری کیا
08:18میں نے کہا جی سر سردار خان اور پلوشہ بھی میری بیگناہی کے ثبوت ڈھوننے گئے تھے
08:22شاید سردار خان کو تو بھگوڑا ظاہر کر دیا گیا ہو
08:25اس کی چھوٹی تو کب کی ختم ہو چکی ہوگی
08:27اورنگزیب صاحب میری بات کا جواب دیے بغیر مجھے ساتھ لے کر اپنے دفتر میں داخل ہوئے
08:31مجھے بیٹھنے کا اشارہ کر کے انہوں نے انٹرکوم اٹھا کر
08:34کلرک کو میرا یونٹ وابسی کا موف آرڈر تیار کرنے کا حکم دیا
08:48چناختی کارڈ اور موبائل فون وغیرہ موجود تھے
08:50یہ وہ سامان تھا جو میری گرفتاری کے وقت یہاں چمہ کیا گیا تھا
08:53شکریہ کہہ کر میں نے سامان وردی کی جیبوں میں منتقل کر دیا
08:56وہ گھمبیر لہجے میں بولے سردار اپنے گھر میں ہے
08:59حادثے میں اس کی دائیں ٹانگ ٹوٹ گئی تھی
09:01اس حادثے کی وجہ سے اسے بھی واپس جنٹ بھیج دیا گیا ہے
09:04میرے مو سے نکلا پلوشہ
09:06مجھے اپنی آواز جیسے کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی
09:09وہ بولے اس بارے میں تمہیں سردار ہی تفصیل سے بتائے گا
09:12وہ کچھ بتانے پر آمادہ نہیں تھے
09:14ان کا دکھ بھرا لہجہ میرے دل دہلائے ہوئے تھا
09:17میں نے کہا سر کچھ تو بتائیں
09:18وہ ٹھیک تو ہے نا
09:19کیا وہ بھی حادثے کے وقت سردار کے ساتھ تھی
09:21میرا ذہن ماوف ہوتا جا رہا تھا
09:23کیا سردار کی طرح وہ بھی زخمی تھی
09:25اگر ایسا تھا تو مجھے گھر والوں نے کیوں نہیں بتایا تھا
09:28انہیں تو لازمان یہ خبر ہونا چاہیے تھی
09:30یا ممکن تھا کہ جس وقت میں نے گھر فون کیا تھا
09:32اس وقت تک سردار وغیرہ کا حادثہ نہ ہوا ہو
09:35وہ نپے طلع الفاظ میں بولا
09:36زیشان بہت سارے حادثوں کو
09:38اپنے پیاروں کے بچھڑنے کو
09:40اور ان کی معذوری وغیرہ کو ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے
09:43اب میں نہیں جانتا کہ پلوشہ کے ساتھ کیا ہوا ہے
09:45یا کچھ بھی نہیں ہوا
09:55کاری آدمی نہیں ہے
09:56اس لیے نہ میں نے سردار سے اس کے مطالعے کچھ پوچھا
09:59اور نہ اس نے کچھ بتانے کی زہمت کی
10:01میں نے کہا سر جھوٹ بول کر مجھے پہلانے کی کوشش نہ کریں
10:04وہ بولے موف آرڈر بننے تک
10:05اپنی وردی وغیرہ اتار لو
10:07اس نے جیب سے کار کی چابی نکال کر میری طرف پھینک دی
10:09میں زیچ ہو کر بولا آخر آپ مجھے بتا کیوں نہیں دیتے
10:12کہ اصل بات کیا ہے
10:13اس نے کرسی گھما کر اپنا رخ دیوار کی جانب موڑ لیا
10:16بولا اگر مجھے معلوم ہوتا تو ضرور بتاتا
10:18ایک لمحہ سوچنے کے بعد میں ان کے دفتر سے نکل گیا
10:21ان کے گھر پہنچ کر میں نے جلدی جلدی وردی اتار کر کپڑے پہنے
10:24اور پھر اپنا سامان سمیٹ کر وہاں سے نکل آیا
10:27واپسی پر میرا موف آرڈر تیار ہو چکا تھا
10:29موف آرڈر مجھے پکڑاتے ہوئے اورنگ زیب صاحب کہنے لگے
10:32کار کی چابی اپنے پاس رکھو
10:34بعد میں واپس کر دینا
10:35میں فیلحال سرکاری گاڑی پر گزارا کر لوں گا
10:38شکریہ وغیرہ ادا کرنے کا تکلف کیے بغیر
10:40میں ان سے مسافہ کر کے کار کی جانب بڑھ گیا
10:42میرے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی
10:44وہ جھک کر نصیحت کرتا ہوا بولا
10:46احتیاط سے جانا
10:47تیز رفتاری سے ماضی میں ہوا
10:49تیز رفتاری سے ماضی میں ہوا کام تو تبدیل نہیں ہو سکے گا
10:52البتہ تم خود ماضی بن جاؤ گے
10:54جی سر کہتے ہوئے میں نے کار موڑ لی
10:56موبائل فون کی بیٹری بند پڑے پڑے ختم ہو چکی تھی
10:59سب سے پہلے میں نے ای ٹی ایم سے
11:00ضرورت کے مطابق رقم نکالی
11:02اور پھر ایک نیا موبائل فون خرید کر
11:04اپنا سم کارڈ اس میں منتقل کر دیا
11:06ایک ایزی لوٹ کی دکان سے سم کارڈ
11:08ریچارج کر کے میں نے فوراں سردار کو کال کی
11:10آگے سے آپ کا مطلوبہ نمبر
11:12کسی کے استعمال میں نہیں ہے
11:13کی بےہودہ خبر سن کر میں ابو جان کا نمبر
11:16ملانے لگا
11:17چونکہ اس بار میں ذاتی نمبر سے کال کر رہا تھا
11:19تب ہی انہوں نے میرا نام پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی
11:22گھنٹی وصول کرتے ہی ابو جان کی آواز آئی
11:24السلام علیکم زیشان بیٹا
11:25میں نے کہا والیکم السلام ابو جان کیسے ہیں
11:28وہ بولے بلکل ٹھیک ہو بیٹا
11:29باقی تمام بھی خیریت سے ہیں
11:31باقی تم دونوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے
11:33ان کی بات سن کر میرا سانس رکنے لگا
11:35آخر کوئی تو بات تھی کہ سردار نے
11:37گھر میں پلوشہ کے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا تھا
11:39اسی طرح آرنگزیب صاحب بھی کچھ بتانے پر راضی نہیں تھے
11:42یا شاید سچ مچ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا
11:45مجھے خاموش پا کر ابو جان مستفسر ہوئے
11:47چپ کیوں ہو بیٹا
11:48میں نے کہا بس یہ اطلاع دے رہا تھا
11:50کہ کل تک انشاءاللہ میں گھر پہنچ جاؤں گا
11:52باقی گپ شپ ملنے پر ہوگی
11:54انہوں نے اشتیاق بھرے لہزے میں پوچھا
11:56پلوشہ بیٹی تمہارے ساتھ ہے
11:57میں نے کہا گھر آ کر بات کرتے ہیں ابو
11:59اس وقت میں ڈرائیو کر رہا ہوں
12:01اس وقت میں ہان آ کی حالت میں نہیں تھا
12:03انہوں نے رابطہ منقطع کر دیا
12:04ٹھیک ہے بیٹا اپنا خیال رکھنا
12:05موبائل فون بند کر کے میں نے ساتھ والی سیٹ پر پھینکا
12:08اور خود کو تسلی دینے کے لیے
12:10کچھ بہتر سوچنے کی کوشش کرنے لگا
12:12جو اس وقت ممکن نہیں لگ رہا تھا
12:14ہر سوچ میرے دل کو بھٹھائی جا رہی تھی
12:16کیا مجھے معذور پلوشہ منظور تھی
12:18میں نے دل سے پوچھا جس کا جواب نہائیت واضح ملا
12:20دل و جان سے منظور ہے
12:22بس وہ زندہ ہو
12:23میں ساری زندگی اس کی ختمت کروں گا
12:25اچانک ہی میرے دماغ میں کمانڈر عبدالحق کے
12:27زو مانی گفتگو گونجنے لگی
12:29اس نے سرسری انداز میں پلوشہ کے لیے دعا کی تھی
12:32اور ڈیرہ اسماعیل خان میں مجھ سے الویدہ ہوتے وقت
12:34اس نے مجھ سے معافی بھی مانگی تھی
12:36رسمی معذرت اور کسی غلطی پر معذرت چاہنے میں
12:39زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے
12:40اور اس وقت اس کا انداز رسمی معذرت والا نہیں تھا
12:44اس کا صاف مطلب یہی تھا
12:45کہ اسے پلوشہ کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کے بارے میں معلوم تھا
12:48لیکن اس نے جان بوچھ کر مجھے لاعلم رکھا
12:51اور یہی وجہ تھی کہ اس نے میری واپسی پر زور دیا تھا
12:54یہ بھی ممکن تھا کہ اسے اس بارے
12:55نکس ٹوورٹ کی موت سے پہلے ہی پتا چل گیا ہو
12:58اور مجھے ذہنی انتشار سے بچانے کے لیے
13:00اس نے یہ خبر اپنے تک محدود رکھی ہو
13:02اور بعد میں شرمندگی کی وجہ سے اظہار نہ کر سکا ہو
13:05ان تمام ملچنوں سے مجھے سردار خان ہی نکال سکتا تھا
13:09میں ایک بار سردار کے گھر جا چکا تھا
13:11اور اس وقت جو میری دماغی حالت تھی
13:12اس کے بعد اورنگزیب صاحب کی نصیحت پر عمل کرنا ایک مزاق ہی تھا
13:16ٹاولپنڈی سے سردار کے گاؤں تک
13:18اڑھائی تین گھنٹوں میں پہنچ گیا
13:20اس کے گھر کے سامنے کار روک کر میں نیچے اترا
13:22سپہر کے چھے بج رہے تھے
13:24دروازے پر دستک دیتے ہی ایک چھوٹا سلڑ کا دروازے پر آیا
13:27میں نے پوچھا سردار خان گھر پر ہیں
13:29اس نے اس بات مصر ہلایا ہاں مامو جان گھر پر ہیں
13:32اس کے ساتھ ہی اس نے اندر کی طرف رخ موڑ کر ہانک لگائی
13:35مامو جان آپ کا مہمان ہے
13:36دروازے کی طرف کھٹ پٹ کی آواز آئی
13:38جیسے کوئی بے ساکھیوں پر چل رہا ہو
13:40میرا دل جیسے ڈوبنے لگ گیا تھا
13:42چھوٹے بچے نے دروازے کا ایک کیوارڈ کھول لیا تھا
13:45اور پھر سردار خان گرے سامنے تھا
13:47مجھے دیکھتے ہی وہ سن ہو گیا
13:49کوئی لفظ مو سے نکالے بغیر ہم ایک دوسرے کو گھورتے رہیں
13:52وہ پہلے سے کافی کمزور ہو گیا تھا
13:54دائیں ٹانگ پر گھٹنے سے نیچے پلستر چڑھا ہوا تھا
13:56بائیں ٹانگ البتہ محفوظ تھی
13:58اس کے چہرے پر اچھی خاصی داڑی بھی نظر آ رہی تھی
14:00وہ بولا موسن بیٹا بیٹھک کا دروازہ کھولو
14:03اپنے بھانجے کو کہہ کر وہ میرے قریب ہوا
14:05اور پھر وہ میری باہوں میں تھا
14:07چند لمحوں بعد ہم بیٹھک میں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے
14:10میں اس سے کوئی سوال پوچھنے کی جررت نہیں کر پا رہا تھا
14:12وہ بھی خاموش بیٹھا ہوا تھا
14:14تھوڑی دیر اسی خاموشی میں گزر کر
14:16گفتگو کی ابتدا سردار نے کی تھی
14:18بولا لی زونہ کی کال آئی تھی
14:19وہ پاکستان آنے کے لیے تیار ہے
14:21شاید مہینے ڈیڑھ تک جہاں پہنچ جائے
14:23یہ خوشی کی خبر سناتے ہوئے بھی
14:25وہ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے رو رہا ہو
14:27میں خاموش بیٹھ رہا
14:28وہ دوبارہ بولا اس نے نوکری سے استیفہ دے دیا ہے
14:31اور اب پاکستان آنے کے لیے کاغذی کاروائی کر رہے ہیں
14:34اس کی یہ باتیں ایک ایسی ہی کوشش لگ رہی تھیں
14:36جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر کے
14:39جان بجانے کی کوشش کرتا ہے
14:41اسی وقت اس کا کم سن بھانجا
14:42ٹرے میں شربت کا جگ اور دو خالی گلاس رکھے اندر داخل ہوا
14:46بڑی مشکل سے اس نے ٹرے اٹھائے ہوئی تھی
14:48ٹرے میز پر رکھ کر وہ باہر نکل گیا تھا
14:50مجھے سخت پیاس محسوس ہو رہی تھی
14:52مگر میں نے جگ کو ہاتھ نہیں لگایا تھا
14:54میرے موز سے فزی فزی آواز نکلی کیا ہوا تھا
14:57ابھی تک مجھے یہ پوچھنے کی حمد نہیں ہوئی تھی
14:59کہ پلوشہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے
15:01میں کچھ دیر مزید خود کو خوش فہمی میں مبتلا رکھنا چاہتا تھا
15:05میری بات سن کر سردار کسی گہری سوچ میں کھو گیا
15:08میری نظریں زمین پر گڑی ہوئی تھی
15:09اور دل سے دعائیں نکل رہی تھی
15:20سردار کی خاموشی طول پکڑنے لگی
15:24میں نے بھی اسے بولنے پر نہیں اکسایا تھا
15:26بس انتظار کی عذیت کو برداشت کرتا رہا
15:29وہ بولا وہ بہت پرعظم تھی
15:31اسے مکمل جقین تھا کہ وہ اپنے راجو کی بے گناہی کے ثبوت ضرور حاصل کر لے گی
15:35کہتی تھی سردار بھائی جان دے دوں گی
15:37مگر ثبوت حاصل کے بغیر نہیں لوٹوں گی
15:39نصراللہ خان کے گھر سے ہمیں تمہارے رکفائے ہوئے ہتھیار مل گئے تھے
15:43کمانڈر نصراللہ نے افغانستان کے رستے کی طرف ہماری رہنمائی کر دی تھی
15:47انگو رڈے سے ہم سرحد تک پہنچے
15:49مگر پھر اس کا ارادہ تبدیل ہو گیا
15:51کہنے لگی کہ افغانستان جا کر ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بہتر ہے
15:54کہ یہاں سے کسی دہشتگرد کے گروپ میں شامل ہو کر وہاں پہنچیں
15:58اس طرح البرٹ بروک وغیرہ کو ڈھونڈنے میں آسانی رہے گی
16:01اسے سب سے زیادہ امید جینیفر کے ملنے کی تھی
16:03اسے یقین تھا کہ جینی اس کی مدد ضرور کرتی
16:06سرحد کے قریب جا کر ہم واپس پلٹ آئے تھے
16:09اپنی شکل چھپانے کے لیے اس نے ہلکی ہلکی موچھیں
16:11اور داڑی چہرے پر چپکا کر سر پر پگری لپیٹ رکھی تھی
16:14میں نے بال کٹوانے کا مشورہ دیا تو کہنے لگی
16:17کیوں اپنے دوست سے پٹوانا چاہتے ہو
16:19راجو نے منع کر دیا ہے اور آپ جانتے ہیں نا
16:21کہ ان کی بات کو ٹالنا میرے لیے ممکن نہیں
16:23میرا چہرہ چونکہ دہشتگردوں کے لیے نیا تھا
16:26اس لیے میں نے ہلیا تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی تھی
16:28اس کا منصوبہ شمالی وزرستان میں
16:30دیگان کے ملک گلبدین کے پاس جا کر کام حاصل کرنے کا تھا
16:34کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ملک گلبدین بھی
16:36امریکیوں کا خاص بندہ ہے
16:37اس نے مامو کے گھر جا کر
16:39اپنے دودھ شریک بھائی کے بارے میں معلومات حاصل کی
16:41کیونکہ اسی کے ذریعے ہم دہشتگردوں میں جگہ بنا سکتے تھے
16:44معلوم ہوا کہ وہ ایک ہی دن پہلے
16:46تور خار روانہ ہوا ہے
16:47سنائپر رائفل اس کے مامو کے گھر چھوڑ کر
16:50ہم نے بھی ویگن میں بیٹھ کر تور خار کا رخ کیا
16:52وہ رائفل ہم دہشتگردوں میں جگہ بنانے کے بعد
16:55وہاں سے بہ آسانی لے جا سکتے تھے
16:57تور خار کا ملک فیروز
16:58اب سنوبر خان کے بعد دہشتگردوں کا کرتا دھرتا ہے
17:01لیکن جنوبی وزیرستان میں پلوشہ اور آپ نے بہت کام کیا تھا
17:05اس لیے ہلیہ تبدیل کرنے کے باوجود
17:06وہ ملک فیروز کے پاس کام حاصل نہیں کرنا چاہتی تھی
17:09البتہ اس کی بیٹھک میں ایک بار جا کر
17:11اپنے بھائی کا بتا معلوم کرنا اتنا مشکل نہیں تھا
17:14ہم دونوں دوپہر کے وقت تور خار پہنچے تھے
17:17لیکن اس کی بیٹھک میں گھستے ہی
17:18عجیب صورتحال کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا
17:20اسے ایک انوکھا اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے
17:23کہ تور خار کے سردار فیروز خان کے ہمراہ
17:26راج پال بیٹھا کہہ کہہ لگا رہا تھا
17:28وہی ہندو راج پال جس نے
17:29اپنے ساتھ امریکہ میں سنائپر کورس کیا تھا
17:32جب تک میں اپنا چہرہ چھپانے کی کوشش کرتا
17:34اس نے مجھے پہچان لیا تھا
17:36پہچانتے ساتھ ہی اس نے فیروز خان سے پوچھا
17:38کہ پاکستان آرمی کا جوان
17:39اس کی بیٹھک میں کیا کرنے آیا ہے
17:41اس کی بات سنتے ہی فیروز خان چونکر میری طرف متوجہ ہوا
17:44اور تب تک میں ایک نتیجے پر پہنچ گیا تھا
17:46وہاں گرفتاری دینے کا مطلب
17:48خود کو زباہ کروانا ہوتا
17:49پلوشہ کو بھی صورتحال کی سنگینی کا احساس ہو گیا تھا
17:52میں نے فوراں کندے سے لٹکی
17:54کلیشن کو اتار کر سیفٹی لیور
17:56برسٹ پر لگاتے ہوئے ٹرگر دبا دیا
17:58میرا نشانہ راج پال ہی تھا
17:59مرنے سے پہلے کم از کم ایک دشمن سے تو جان چھوٹ جاتی
18:02راج پال چھاتی میں گولی کھا کر تڑپنے لگ گیا تھا
18:05فیروز خان کے آدمی ایک لمحے کے لیے حقہ بکہ رہ گئے تھے
18:08اس وقت پلوشہ نے مجھے باہر کی طرف کھینچا
18:10اور ہم بھاگ کر بیٹھک سے باہر نکل آئے
18:12پیدل بھاگ کر جان بچانا ممکن نہیں تھا
18:14اور خوش قسمتی سے وہاں تین چار گاڑیاں کھڑی تھی
18:16پلوشہ نے فورم ایک ڈبل کیون کا شیشہ توڑا
18:19اور اندر گھس کر ایگنیشن کی تار توڑ کر
18:21گاڑی کو سٹارٹ کرنے کی کوشش کی
18:23اس دوران میں نے بیٹھک کے دروازے سے برامت ہونے والے
18:26دو تین دہشتگردوں کو اپنا شکار بنا لیا تھا
18:29باقی دروازے کی آڑ ہی سے فائرنگ کا جواب دینے لگے
18:32پلوشہ نے ڈبل کیون سٹارٹ کرتے ہی
18:34میرے لیے اگلی نشست کا دروازہ کھولا
18:36اور میرے بیٹھتے ہی گاڑی بھگا دی
18:38اس ڈبل کیون کے ساتھ کھڑی ہوئی
18:39دو گاڑیوں کے ٹائر پھاڑ کر
18:41میں نے وقتی طور پر ناکارا کر دیا تھا
18:43مگر ان کے پاس بیٹھک میں اور گاڑیاں موجود تھی
18:45دشمن کی تین گاڑیاں ہمارے تاقب میں تھی
18:48پلوشہ بڑی مہارت سے گاڑی بھگائے جا رہی تھی
18:50میرے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا
18:52کہ ہم کسی قابل خان محسود کے پاس
18:54وشلام جا رہے ہیں
18:55تینوں گاڑیاں پوری کوشش کے باوجود
18:57ہمارے قریب نہیں پہنچی تھی
18:58وہ بلا شک و شبہ ایک بہترین ڈرائیور تھی
19:01لیکن پھر ہماری بدقسمتی کا ظہور ہوا
19:03اس وقت ہم وشلام کے بلکل قریب پہنچ گئے تھے
19:05اور بلکل ٹھیک جا رہے تھے
19:07کہ اچانک سڑک پر ایک چھوٹا بچہ
19:09اچانک ہی ہماری گاڑی کے سامنے آیا
19:11پلوشہ نے سٹیرنگ کو بائیں جانب کاتا
19:13گاڑی کچھی سڑک کے کنارے
19:15ایک بڑے پتھر سے ٹکرائی
19:16اور لڑکیاں کھاتے ہوئے نشیب میں گرنے لگی
19:19میرے دماغ میں جو آخری احساس زندہ ہے
19:21وہ یہی ہے
19:22کہ میں نے دروازہ کھول کر باہر چلانگ لگائی تھی
19:24اس کے بعد میری آنکھ ہسپتال میں کھلی تھی
19:26میرے سر پر گہری چوٹ لگی تھی
19:28اور مجھے قریباً مہینے بعد ہوش آیا تھا
19:30میں پشاور کے ایک اچھے ہسپتال میں داخل تھا
19:33مجھے وہاں لے کر آنے والا قابل خان محسود تھا
19:36وہ پلوشہ کا مو بولا بھائی تھا
19:38اسی کی زبانی باقی واقعات مجھے معلوم ہوئے
19:40حادثہ ہوتے ہی وہاں لوگ اگٹھے ہو گئے تھے
19:43دشمن شاید ہماری موت کی تسلی کر کے ہی وہاں سے ہٹتے
19:46مگر میری خوش قسمتی کہہ لو
19:47کہ وشلام کے لوگوں نے پلوشہ کو فوراں ہی پہچان لیا
19:50وہ حادثے کے بعد بھی ہوش میں تھی
19:52وہ سب سے پہلے ہمیں وانہ لے کر گئے
19:54مگر وہاں کوئی خاص ہسپتال تو موجود نہیں ہے
19:56اس لیے ایمبولنس کروا کر
19:58بنو اور پھر وہاں سے صاف جواب ملنے پر پشاور لے آئے
20:01وہ حادثے کے ہفتہ بعد تک زندہ رہی
20:04اور پھر سردار نے آنکھوں میں آئی
20:06نمی صاف کی اور گلوگیر لہجے میں بولا
20:08اس نے قابل خان کو بتا دیا تھا
20:10کہ وہ اپنی بہن سپو گمائے کے پہلوں میں دفن ہونا چاہتی ہے
20:13ہوش میں آتے ہی
20:14مجھے قابل خان نے ساری بات تفصیل سے بتلائی
20:17اس نے شناختی کارٹ کے ذریعے
20:18میرے گھر والوں کا پتہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی
20:20مگر میری جیب میں تو نقلی شناختی کارٹ تھا
20:23اس لیے اسے کامجا بھی نہیں ہوئی تھی
20:25پلوشہ بھی حادثے کے بعد
20:26تھوڑی دیر تو ہوش میں تھی لیکن
20:28اس کے بعد وہ مسلسل بے ہوش رہی تھی
20:30بس ہمیں چھوڑنے کے فیصلے پر عمل کرتے وقت
20:32اسے چند لمحوں کے لیے ہوش آیا
20:34اور قابل خان کے سامنے
20:35اپنے دفن کی وسیعت کر کے وہ چلی گئی
20:37کبھی نہ آنے کے لیے
20:39میں نے ہوش میں آتے ہی اورنگزیب صاحب سے بات کی
20:41وہ میرے واپس نہ آنے کی وجہ سے پریشان تھے
20:43اس کے حکم پر مجھے فوراں ہی
20:45سی ایم ایچ پشاور میں منتقل کر دیا گیا
20:47میں نے قابل خان کا شکریہ دا کر کے
20:49اسے رخصت کیا
20:50میری ٹانگ پر تو سیول ہسپتال والوں نے پلستر چڑھا دیا تھا
20:53سی ایم ایچ والوں نے مجھے چند دن رکھ کر
20:55سکھ لیو دے کر چھوٹی بھیج دیا
20:57اور تب سے میں یہی ہوں
20:58سردار کی بات ختم ہو چکی تھی
21:00میں کہیں دور خلا میں دیکھ رہا تھا
21:02نہ میری آنکھوں میں آنسو تھے
21:04اور نہ دماغ کسی سوچ پر مرتقز
21:06جانے میں کیا سوچ رہا تھا
21:08تو دوستو یہ تھی ہماری آج کے اپیسوڈ
21:12امید کرتے ہیں
21:13آپ کو ہماری کہانی پسند آئی ہوگی
21:14جانے سے پہلے اس ویڈیو کو لائک کیجئے
21:16اور شیئر کرنا مک بھولیے
21:18کومنٹ کر کے ہمیں بتائیے
21:19کہ آپ کو ہماری ویڈیو کیسی لگی
21:20اور اگر ابھی تک آپ نے
21:22اس چینل کو سبسکرائب نہیں کیا
21:24تو اسے سبسکرائب کیجئے
21:25اور بیل آئیکن دباہ کر
21:26all notifications on کر لیجئے