Skip to playerSkip to main contentSkip to footer
  • 4 days ago
Sniper series episode 66 a story full of thrill and suspense operation in waziristan most deadly operation in waziristan
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army

Category

😹
Fun
Transcript
00:00شمریز خان
00:30شمریز خانہ
01:00انجان آدمی کے لیے تو وہ پہاڑ بھول بھولئیوں کی طرح ہیں جو ایک بار ان بھول بھولئیوں میں گھس جائے نکلنے کا راستہ نہیں ڈھون پاتا
01:06میں نے مغرب کے سمت اپنا سفر چاری رکھا اور ایسا کرنے کے لیے مجھے اب اوپر چڑھنا پڑ گیا تھا
01:11بلندی کے سفر میں آدمی کی رفتار خود بخود دھیمی پڑ جاتی ہیں
01:15زیادہ تیزی کی کوشش میں تھکن کے ساتھ انسان کا سانس بھی پھولنے لگتا ہے
01:19اور میدانی علاقے سے آئے ہوئے آدمیوں کا سانس رہائشی لوگوں کی نسبت زیادہ پھولتا ہے
01:23سورج کے گرد پھرنے والی آوارہ بدلیاں دھوپ کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی تھی
01:29گو لگتا تو نہیں تھا کہ برف باری یا بارش ہوگی
01:32مگر اس بارے میں وہ سوک سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا
01:35یہاں کا موسم تو ایسا ہے کہ تیز دھوپ کی حکمرانی کو بادل چند لمحوں میں زیر کر کے جلتھل کر دیتے ہیں
01:41اور زمین پر بارش کا پانی ابھی تک بہرہ ہوتا ہے
01:44چڑھائی شروع شروع میں تو نارمل تھی مگر آہستہ آہستہ سخت ہونا شروع ہو گئی
01:49یہاں تک کہ میرے لیے سیدھا اوپر چڑھنا مشکل ہو گیا
01:51اور میں ترشاہ آگے کی طرف سفر کرنے لگا
01:54یوں کہ دس پندرہ قدموں کے بعد میں تین چار قدم بلند ہو پاتا
01:57سورج اپنا آدھے سے زیادہ سفر تیہ کر چکا تھا
02:01میرے پاس موجود پانی کی دونوں بوتلیں خالی ہو چکی تھی
02:03اور جس بلندی پر میں موجود تھا
02:05اتنی انچائی پر عموماً چشمیں نہیں ہوتے
02:08چشمیں زیادہ تر نالوں کی تہ سے بیس پچیس گز اوپر ہی پھوٹتے ہیں
02:12اس پہاڑی کی ڈھلان تو اتنی سیدھی تھی کہ وہاں برف بھی نہیں ٹھہر پاتی تھی
02:15اب دوسری جانب اتر کر ہی مجھے کوئی چشمہ مل سکتا تھا
02:19نالے کی تہ میں پہنچنے سے پہلے ہی مجھے ایک چشمہ نظر آ گیا تھا
02:23وہیں پتھر کی ایک بڑی چٹان پر اپنا سفری تھیلہ رکھ کر
02:26میں نے چشمے کی پانی سے وضو کیا
02:28خوب سیر ہو کر پانی پیا
02:29اور دو رکت اثر کی نماز پڑھی
02:31گلگارے نے دال کے پراتھوں کے درمیان تازہ مکھن ڈال کر دیا تھا
02:35تھنڈے ہونے کے باوجود ان پراتھوں سے اٹھنے والی دیسی مکھن
02:38اور خلوص کی مہک میرے رگو پہ میں اتر گئی
02:41میں بمشکل دو ہی کھا سکا تھا
02:43باقی دو میں نے رات کے لیے چھوڑ دیئے تھے
02:45کھانا کھا کر میں تیار ہو کر آگے بڑھ گیا
02:47ایک بار پھر نالے کا ہموار سفر شروع ہو گیا تھا
02:50تھوڑا سا آگے بڑھتے ہی کلیشن کوف کی تر ترہ ہٹ میرے کانوں میں گونجی
02:54کسی نے ٹرگر مکمل دبا کر ایک لمبا برسٹ فائر کیا تھا
02:58فائر کی آواز سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ہوای فائر کیا گیا ہے
03:01اور ایسے ہوا میں کلیشن کوف کا برسٹ فائر کرنا
03:04یا تو خوشی کے موقع پہ گیا جاتا ہے
03:06یا دوسری صورت میں کسی کو للکارنے کے لیے
03:08البتہ یہ بھی ممکن تھا کہ کسی احمق نے بطور شغل یہ حرکت کی ہوتی
03:13مگر ایسا ہونے کا امکان ذرا کم ہی تھا
03:15میں نے رفتار کم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی
03:18تھوڑے دیر بعد ہی مجھے اپنا دوسرا اندازہ ٹھیک ہوتا دکھائی دیا
03:21وہ برسٹ بطور اعلان جنگ تھا
03:23پرانے زمانے میں جنگ کا اعلان نقارہ بجا کر
03:26یا سینگ پھونک کر کیا جاتا تھا
03:28فی زمانہ کلیشن کوف کے برسٹ ہی نے
03:30اعلان جنگ کی جگہ سنبھال لی تھی
03:32اچانک ہی ایک سے زیادہ ہتھیاروں کے دھانے کھل گئے تھے
03:35وہ فائر دو تین کلومیٹر دور ہو رہا تھا
03:38اور مجھے لگ رہا تھا کہ میں اسی طرح چلتا رہا
03:40تو ان مقابلہ کرنے والوں میں پھنسوں گا
03:42اس سوچ نے مجھے قدم روکنے پر مجبور کر دیا
03:45مجھے زیادہ دیر تک سوچ میں مبتلا رہنا نہیں پڑا
03:48کہ دو آدمی مجھے نالے کے موڈ سے نمودار ہو کر
03:50اپنی جانباتیں دکھائی دئیے
03:52دونوں خالی ہاتھ ہی لگ رہے تھے
03:53اس کے باوجود میں نے کلیشن کوف کندھے سے اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی
03:57ان میں ایک ادھیڑ عمر اور دوسرا جوان سال لڑکا تھا
04:00شکلوں کی شباحت سے دونوں باپ بیٹا لگ رہے تھے
04:02باپ نے السلام علیکم کہتے ہوئے پوچھا
04:05وہ لڑکے کہاں جا رہے ہو
04:06اس طرف مت جاؤ
04:07میں نے بھی فوراں پوچھا کیوں کیا ہوا
04:09وہ میرے قریب رکھ کر اپنے چڑھے سانس کو درست کرتا ہوا بولا
04:13غزنی خیل اور شلوبر قلا برسرے پیکار ہیں
04:16جوانب کے آدمی تمہیں مخالف قبیلے کا سمجھ کر قتل کر دیں گے
04:20وہ شاید بھاگ کر نالا موڑ تک پہنچے تھے
04:22اور اب وہاں سے تیز قدموں سے چلتے ہوئے مجھ تک پہنچے تھے
04:25میں نے پوچھا یہ سامنے کون سا گاؤں ہے
04:27اس نے حیرانی سے پوچھا
04:29اگر آپ کو اتنا نہیں معلوم تو ادھر کیوں جا رہے ہو
04:31میں نے کہا میں نے تو خان کلے جانا ہے
04:33وہ بولا خان کلے تو اس جگہ سے آٹھ دس کلومیٹر دور شمال کی جانے پڑتا ہے
04:38میں نے دوبارہ پوچھا ویسے یہ گاؤں کون سا ہے
04:40وہ بولا شلوبر جن پر غزنی خیلوں نے چڑھائی کر دی ہے
04:43میں نے پوچھا کیوں
04:44وہ بولا کسی لڑکی کا چکر ہے
04:46شلوبر قبیلے کا جوان غزنی خیل قبیلے کی ایک ایسی لڑکی کو بھگا لیا ہے
04:50جس کے باپ نے اپنی بیٹی کا رشتہ پشاور میں کسی دوست کے بیٹے سے تیہ کیا ہوا تھا
04:54غزنی خیل والوں کو معلوم ہو گیا کہ لڑکی کسی کے ساتھ بھاگی ہے
04:57اب شلوبر والے اس لڑکی کے بدلے مو مانگی رقم دینے کو تیار ہیں
05:01مگر وہ اپنی لڑکی اور اسے بھگانے والے جوان کا مطالبہ کر رہے ہیں
05:05میں نے اندازہ لگایا مطلب دونوں کو قتل کرنے کے لیے
05:08اس نے کہا جی جناب
05:09اب آپ بھی اس راستے کو نظر انداز کر دیں
05:11یہ نہ ہو خامخہ کسی اندھی گولی کا نشانہ بن جائیں
05:14میں نے حیرانی ظاہر کی
05:16ویسے کیا یہاں سے پاکستان میں بھی لڑکیوں کے رشتے کیا جاتے ہیں
05:20اس نے مو بناتے ہوئے کہا
05:21اللہ کے بندے آدھا افغانستان تو پاکستان میں موجود ہے
05:24باقی اپنے ہاتھ تو لڑکی کا سعودہ کیا جاتا ہے
05:26جس نے زیادہ رقم پھینکی وہ لے گیا
05:28میں نے پوچھا تو شلوبر والے بھی تو رقم دے رہے ہیں
05:31وہ بولا پہلی بات تو یہ ہے
05:32کہ دشمن قبیلیہ سے رشتہ نہیں کیا جاتا
05:34اور دوسرا شلوبر کے جوان نے لڑکی کو بھگا کر
05:37پورے غزنی خیل کی عزت اچھالی ہے
05:39اور اس کا حل تو ایک ہی ہے
05:40میں نے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں
05:42وہ بولا یہاں سے قریباً چار کلومیٹر جنوب کی جانب
05:45ہمارا گاؤں ہیں
05:46ہمارے ساتھ چلنا ہے تو آ جاؤ
05:49میں نے پہاڑوں کے پیچھے چھپتے ہوئے سورج کو دیکھا
05:51غروب آفتاب میں بیس پچیس منٹ ہی باقی تھے
05:54رات گزارنے کے لیے وہی جگہ مناسب تھی
05:56شنہ ونہ جا کر
05:58یوں ہی سفر کی توالت میں اضافہ ہونا تھا
06:00رات کے کھانے کے لیے میرے پاس پر آٹھیں موجود تھے
06:10میٹر فاسطہ تیہ کرتے ہوئے دان تو پسین آ جاتا ہے
06:13میں نے کہا آپ کا بہت شکریہ
06:14اور وہ کندھیں اچھکا کر بیٹے کے ساتھ آگے بڑھ گیا
06:17میں وہیں کھڑا انہیں دیکھتا رہا
06:19وہ اسی اونچی پہاڑی پر چڑ رہے تھے
06:21جہاں سے میں اترا تھا
06:22فائرنگ کی آواز میں دم بدم اضافہ ہو رہا تھا
06:25ایک ساتھ کئی کلیشن گوفیں گرج رہی تھی
06:27اور پھر ان تمام آوازوں پر
06:29ٹول پائنٹ سیون ایم ایم کی آواز بھاری پڑ گئی
06:32جانے وہ تباہی پھیلانے والا ہتھیار کس کے پاس تھا
06:35تھوڑی دیر بعد دو ٹول پائنٹ سیون ایم ایم گرجنے لگی
06:38معلوم یہی پڑتا تھا کہ دونوں جانب وہ ہیوی گنز موجود تھی
06:41یا کسی ایک قبیلے کے پاس دو گنز موجود تھی
06:44اسی گن گرج میں راکٹ لانچر کے دھماکے بھی سنائی دئیے
06:47لگتا تھا دو قبیلوں کی بجائے دو ممالک کی فوجیں
06:50سرحد پر برسرے پیکار ہیں
06:52میں وہیں دائیں بائیں گھوم کر شبسری کے لیے
06:54کوئی مناسب جگہ ٹھونڈنے لگا
06:55جلد ہی ایک جھوکی ہوئی چٹان کے نیچے
06:58مجھے مناسب جگہ دک گئی
06:59اندھیرہ چھانے سے پہلے میں جگہ صاف کر کے
07:01رات کو جلانے کے لیے اندھن اکٹھا کر چکا تھا
07:05کھانا میں نے عشاء کی نماز پڑھ کر ہی گرم کرنا شروع کر دیا
07:08دن کا کھانا دیر سے کھانے کی وجہ سے
07:10مجھے کوئی خاص بھوک محسوس نہیں ہو رہی تھی
07:12لیکن پراتھوں کو گرم کرنے پر
07:14وہ مجھے اتنے لذیذ لگے
07:15کہ میں دونوں ٹھوس گیا
07:17اس طرف برف باری نہ ہونے کے برابر تھی
07:19پیچھے جو بڑی پہاڑی میں عبور کر کے آیا تھا
07:22برف باری کا زور وہاں تک ہی رہا تھا
07:24آگ پر اچھی طرح لکڑیاں ڈال کر
07:26میں سلیپنگ بیگ میں کھوس گیا
07:27وہ سلیپنگ بیگ اچھا خاصا گرم تھا
07:29مگر پھر بھی سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے
07:32بیرونی امداد کی ضرورت تھی
07:33تھوڑی دیر بعد میں یوس ہو گیا
07:35جیسے عام لوگ اپنی خوابگاہ میں بے فکر ہو کر سوتے ہیں
07:37میں صبح تک کا ارادہ کر کے سویا تھا
07:40گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی چھاپا پڑ گیا
07:42ان کی تعداد پانچ تھی
07:43تمام مسلح تھے
07:45آنکھیں کھولتے ہی مجھے پانچ کلیشن گوفیں
07:47اپنی جانب تنی نظر آئیں
07:48گو میں گہری نین سے جاگا تھا
07:50مگر میری تربیت اس نہج پر کی گئی تھی
07:52کہ آنکھ کھلتے ہی مجھے ماحول کا ادراک ہو جاتا
07:55میں نے پوچھا جی آپ لوگ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں
07:57مجھے ایک سیکنڈ کے لیے بھی
07:59یہ یاد کرنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی
08:01کہ میں کہاں ہوں اور مجھ سے دو تین کلومیٹر
08:03کے فاستے پر موجود دو قبائل
08:05برسر پیکار ہیں
08:06ان میں سے ایک تنزیہ لحظے میں بولا
08:07ہم وہی ہیں جن کا شکار تم کرنے آئے تھے
08:10اور اب خود ہمارے شکنجے میں آگئے ہو
08:12میں نے کہا میں مسافر ہوں جناب
08:14اور کسی کا شکار کرنے نہیں آیا
08:16اس مرتبہ وہی آدمی بولا جھوٹ مت بولو
08:18میں نے کہا موطرم مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں
08:20میں خان کلے جا رہا تھا راستہ بھول گیا
08:22سپہر ڈھلے یہاں پہنچا
08:24تو تیز فائرنگ شروع ہو گئی تھی
08:25یہاں سے گزرنے والے ایک آدمی نے بتایا
08:28کہ دو قبیلوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہے
08:29اور یہ کہ خان کلے اس جانب واقع نہیں ہے
08:32میں دن بھر کا تھکہ ہوا تھا
08:33سوچا رات کو آرام کرلوں
08:35صبح خان کلے کی راہ نہ پھوں گا
08:37وہ بولا کہانی اچھی ہے
08:39مگر تمہارا فیصلہ مشر کرے گا
08:41میں نے کہا بھائی جان براہ مربانی
08:42مجھے بے آرام نہ کرو
08:44مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں
08:45کہ آپ کس قبیلے کے ہیں
08:46وہ بولا بھولے بادشاہ
08:47ہم اسی قبیلے کے ہیں
08:48جس کی تاک میں تم یہاں
08:50گھات لگا کر رات کہری ہونے کا انتظار کر رہے تھے
08:52شلوبر قبیلے کے کسی حلیف کو
08:54یوں باتیں نہیں بنانی چاہیے
08:55پچھلی لڑائی میں
08:56تمہارے دو تین آدمیوں نے
08:58چھاپا مار کر ہمارا کافی نقصان کیا تھا
09:00اس مرتبہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے
09:02کیونکہ ہم سارے راستوں کی نگرانی کر رہے ہیں
09:05اس کی بات سنتے ہی
09:06مجھے ساری کہانی کا پتہ چل گیا
09:07وہ غزنی خیل قبیلے کے لوگ تھے
09:09اور رات کے وقت پہاڑی نالوں
09:11اور ایسے رستوں پر گشت کر رہے تھے
09:13جہاں سے شلوبر قبیلے کے لوگ
09:15چھپ کر ان کے پڑاؤ تک رسائی حاصل کرتے
09:17اور انہیں کوئی نقصان پہنچاتے
09:18اور ایسا غالباً ان کی پچھلی لڑائی میں بھی ہوا تھا
09:22جس کا حوالہ مجھ سے بات کرنے والا آدمی دے چکا تھا
09:25میں نے نرمی سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی
09:27ایسا کچھ نہیں ہے
09:28وہ بولا ٹھیک ہے
09:29ہمارے مشر کو مل لو
09:30پھر اس کی مرضی جو فیصلہ وہ کرے
09:31میں نے تنزیہ انداز میں کہا
09:33وہ بھی تو آپ کا مشر ہے
09:34وہ بولا زیادہ باتوں کی ضرورت نہیں
09:36تم ہمارے پڑاؤ سے کلومیٹر بھر کے فاصلے پر
09:39مسلح حالت میں موجود ہو
09:40میں تم پر اعتبار نہیں کر سکتا
09:41میں نے زچ ہو کر کہا
09:43میرا لہجہ زبان اور شکل
09:44جے واضح نہیں کر رہے
09:45کہ میں جہاں سے بالکل اجنبی ہوں
09:47اس نے بے پروائی سے کنتے اچھکائے تو
09:49میں نے کہا تو یہ ہے
09:50کہ مجھے بے آرام نہ کرو
09:52وہ بولا کہہ دیا نا
09:53کہ اس کا فیصلہ مشر کرے گا
09:54اور بے آرامی کیسی
09:56تھوڑا سا فاصلہ ہے
09:57تم وہاں ہمارے پڑاؤ میں
09:58بقیہ رات گزار لینا
09:59صبح ناشتہ کروا کر
10:00ہم خان کلے کی جانب
10:02تمہاری رہنوائی کر دیں گے
10:03میں جھلاتے ہوئے
10:04سلیپنگ بیک سے باہر نکلا
10:05اور اپنا سامان سمیٹنے لگا
10:07ان سے متھا مارنا وقت کا زیادہ تھا
10:09یقیناً وہ سردار کو
10:10اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے
10:12مجھے اس کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے
10:14میرے سامان سمیٹنے کے دوران
10:15وہ ٹارچ روشن کر کے
10:17میری کارروائی کا جائزہ لیت رہے
10:18میری کلیشنکوف البتہ
10:19انہوں نے اپنے قبضے میں کر لی تھی
10:21سفری تھیلہ تیار کر کے
10:23میں نے پیٹھ پر لادا
10:24اور ان کے ساتھ چل پڑا
10:35مگر کسی بے گناہ کو قتل کرنا
10:37مجھے گوارا نہیں تھا
10:38وہ غلط فہمی میں مبتلا تھے
10:40اور مجھے قوی امید تھی
10:41کہ ان کا سردار
10:42مجھ سے بات کرنے والے کی طرح
10:44احمق نہیں ہوگا
10:45کچھ دیر نالے میں چلنے کے بعد
10:47وہ ترچہ ہو کر
10:47نالے کے دائیں جانب موجود
10:49ڈھلان پر چڑھنے لگا
10:50پانچوں بے فکر ہو کر
10:52گپ شپ کرتے جا رہے تھے
10:53ان کے انداز سے بھی یہی ظاہر ہو رہا تھا
10:55کہ دل ہی دل میں
10:56وہ بھی مجھے غیر متعلق شخص سمجھ رہے ہیں
10:58ہمارا سفر بتدریج اوپر کی جانب جاری تھا
11:01آدھ پون گھنٹے بعد
11:03ہم بلندی پر پہنچ کر
11:04نسبتا ہموار راستے پر چلنے لگے
11:06اس دوران ان کے مورچے شروع ہو گئے تھے
11:08لوگوں کی باتیں کرنے کی آواز سے
11:10پتا چل رہا تھا
11:11کہ وہ چوکن نہ تھے
11:12سردی سے مقابلے کے لیے
11:13انہوں نے جا بجا
11:14چھوٹے چھوٹے
11:15علا اور روشن کیے ہوئے تھے
11:16ایک دو آدمیوں نے
11:17قریب آ کر ان سے حال پوچھا
11:19جلد ہی ہم غزنی خیل کے
11:21مشر کے سامنے موجود تھے
11:22وہ جس جگہ بیٹھا تھا
11:23اس کے تین اطراف میں
11:25پتھروں کی دو اڑھائی فٹ
11:26دیواریں اٹھائی گئی تھی
11:27صرف شمال کی جانب
11:29آنے جانے کا راستہ رکھا گیا تھا
11:30شلوبر قبیلہ
11:31اس جگہ سے جنوب مغرب کی جانب موجود تھا
11:34غزنی خیل کے سردار کا نام
11:36سیلاب خان تھا
11:37اس کی عمر چالیس سے پینتالیس سال
11:38کے درمیان دکھائی دے رہی تھی
11:40اس کے مورچے میں بھی
11:41آگ کا بڑا سا علا اور روشن تھا
11:43اور اس کے حمراہ پانچے اور آدمی بھی موجود تھے
11:45روشن خان کی بات سننے سے پہلے
11:47اس نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا
11:49اور ایک آدمی کو قہوہ لانے کا کہا
11:51میں نے علاو کے گرد پڑے ہوئے
11:53ایک پتھر پر نشست سنبھالتے ہوئے
11:55شکریہ کہا
11:56اور خود ہی تفصیل بتانا شروع کرتی
11:58میری کہانی میں کوئی ایسا جھول نہیں تھا
12:00کہ مجھ پر شک کیا جا سکتا
12:01سردار سیلاب خان نے میری بات غور سے سنی
12:03اور اختتام پر معذرت کرتے ہوئے بولا
12:06اپنے آدمیوں کی طرف سے میں معافی چاہتا ہوں
12:08کہ غلط فہمی کی وجہ سے آپ کو
12:10اتنی زہمت اٹھانا پڑ گئی
12:11بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو چکا
12:13آپ یہیں آرام کریں
12:14صبح ہم خان کلے کی جانب آپ کی رہنمائی کر دیں گے
12:26آپ نے ساتھ بستر اور ضرورت کا سامان پھر آ رہا ہوگا
12:28تمہاری اس حرکت سے ایک شریف آدمی کو
12:31اتنی تکلیف ہوئی
12:32اب جاؤ اور دوبارہ کسی ایسے آدمی پر ہاتھ نہ ڈالنا
12:34وہ دھیمے لہجے میں جی سردار کہتا ہوا
12:37مورچے سے باہر نکل گیا
12:38میرے بات کرنے کے دوران ہی ایک آدمی میرے لیے
12:40قہوے لے آیا تھا اور انہی باتوں کے درمیان
12:43قہوے کی پیالی خالی کر کے
12:45میں نے نیچے رکھ دی
12:45روشن خان کے جانے کے بعد سردار نے مجھ سے
12:48کھانے کی بابت دریافت کیا
12:49اور میرے انکار کرنے پر مجھے اسی مورچے میں
12:52آرام کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا
12:54باقی گپ شپ صبح کریں گے
12:56میں نے مملونیت بھرے انداز میں سر ہلایا
12:57اور اپنے سفری تھیلے سے سلیپنگ بیگ نکالنے لگا
13:00آگ کی وجہ سے خوشگوار حدت پھیلی ہوئی تھی
13:03ایک آدمی ہر چند منٹ بعد
13:05علاؤ پر لکڑیاں ڈال کر
13:06آگ کو بجنے نہیں دے رہا تھا
13:08بستر میں گھس کر میں سونے کی کوشش کرنے لگا
13:10مگر شاید سونا میری قسمت میں نہیں تھا
13:12مجھے لیٹے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے
13:14کہ اچانک ایک آدمی مورچے میں داخل ہوا
13:16اس کے پھولے سانسوں سے مجھے سلیپنگ بیگ کے اندر پڑے ہوئے اندازہ ہو گیا
13:20کہ وہ وہاں تک دوڑتا ہوا پہنچا ہے
13:22سردار نے پوچھا خیر تو ہے زمیر خان
13:24وہ بولا سردار ہمیں گھیر لیا گیا ہے
13:26میں نے ابھی مخابرے پر ان کی باتچیت سنی ہے
13:28سلاب خان نے حیرانی سے کہا
13:30گھیر لیا گیا ہے
13:31اکبر خان دماغ جگہ پر ہے
13:32شلوبر گاؤں کے افرادی قوت اتنی نہیں
13:35کہ وہ ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیں
13:36اکبر خان وسوک سے بولا
13:38میام خیل قبیلے کے چنگیزی ان کے ساتھ ہیں سردار
13:41چنگیزیوں نے شمالی اور مشرقی جانب سے گھیرہ ڈالا ہے
13:44جنوب اور مغرب میں شلوبر قبیلہ ہے
13:46ان کے علاوہ چنگیزی سردار نے
13:48کچھ اسبک اور تاجک دوستوں کو بھی ساتھ ملا لیا ہے
13:51جھوٹ بول رہے ہو
13:52سردار سلاب کے لحظے میں شامل اندیشے
13:55اس کے اعتماد کی عمارت زمین بوس ہونے کا مجدہ سنا رہے تھے
13:59اسی وقت سلاب خان کو کسی نے ریڈیو سیٹ پر آواز دی
14:02سردار ہمیں شمال کی طرف کچھ حرکت نظر آ رہی ہے
14:04کہ اپنے آدھے آدمیوں کو اس طرف بٹھا دیں
14:06سلاب خان نے مزید استفسار کی ضرورت محسوس نہیں کی
14:09ہاں بٹھا دو
14:10سردار مشرقی جانب بھی حرکت دیکھی جا رہی ہے
14:13یہ کوئی دوسرا آدمی ہے
14:14سلاب خان کے جواب دینے سے پہلے ہی
14:16ایک دم تیز فائر کھل گیا تھا
14:18گولیوں کی تر ترہ ہٹ کی آواز چاروں طرف سے آ رہی تھی
14:21گویا اکبر خان کی بات مبنی برحقیقت تھی
14:24مجھے غزنی خیل قبیلے سے کوئی ہمدردی نہیں تھی
14:26مگر میں مفت میں گھیرے میں آ گیا تھا
14:28اب شلوبر یا چنگیزیوں کو یہ باور کروانا
14:31کہ میں ان کا ساتھ ہی نہیں ہوں
14:33ناممکنات میں سے تھا
14:34کیونکہ میں ان کے ساتھ ایسی جگہ موجود تھا
14:36جہاں وہ شلوبر قبیلے سے مقابلہ کرنے کٹھے ہوئے تھے
14:40اور یوں بھی باتچیت کی نوبت آنے سے پہلے ہی
14:42کوئی گولی میرا پتہ پوچھ سکتی تھی
14:44جنگ کے دوران استفسار نہیں کیا جاتا
14:46اور ناسفائیاں سنی جاتی ہیں
14:48روشن خان میرے لئے نہائیت منحوس ثابت ہوا تھا
14:51اس کی بیوقوفی مجھے اس حال تک لے آئی تھی
14:53کہ جان کے لالے پڑ گئے تھے
14:55میں سلیپنگ بیک سے باہر نکلا
14:56اب لیٹے رہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی
14:59اپنا سامان دوبارہ سفری تھیلے میں ٹھوس کر
15:02میں اس خطرناک صورتحال سے جان چھڑانے کی تجویز سوچنے لگا
15:05افغانستان کی زمین میرے لئے کچھ زیادہ ہی بھاری ثابت ہو رہی تھی
15:09سردار سلاب خان ریڈیو سیٹ پر اپنے آدمیوں سے رابطہ کر رہا تھا
15:13وہاں بیٹھے باقی آدمی فائرنگ کے شروع ہوتے ہی اپنے اپنے مورچے میں چلے گئے تھے
15:17وہ بات کرتے ہوئے بیچینی سے ٹہل رہا تھا
15:19سردار فائرنگ ہو رہی ہے بیٹھ کر بات کر لو
15:22میری بات سنتے ہی اس نے بے دھیانی مصر ہلایا اور آق کے قریب بیٹھ گیا
15:26مختلف اطراف سے اسے مسلسل خبریں مل رہی تھی
15:28میں نے کہا سردار وہ قریب نہیں آ رہے بس دور دور سے فائر کر رہے ہیں
15:31سلاب نے کہا ٹھیک ہے جب تک قریب نہیں آتے اپنی گولیاں ضائع نہ کرو
15:35بس اکا دکا گولی چلاتے رہو
15:37کہ ان کے قریب آنے کا انتظار کرو
15:39فائرنگ کا یہ سلسلہ گھنٹا بھر جاری رہا
15:41اس کے بعد ایک دم خاموشی چھا گئی
15:43لگ رہا تھا جیسے شلوبر اور ان کے حلیفوں نے بس غزنی خیل قبیلے کو یہ یقین دلانے کے لیے فائرنگ شروع کی تھی
15:58پہاریکی میں بغیر نشانہ لیے فائر کرنے والے دن کو انہیں چن چن کر نشانہ بنا سکتے تھے
16:03وہ چاروں طرف سے گھیرے میں تھے
16:05اور اس گھیرے سے ان کا کوئی بندہ باہر نہیں نکل سکتا تھا
16:08البتہ اس پہاڑی کی دفاعی صورتحال کا اندازہ میں روشنی ہونے پر ہی کر سکتا تھا
16:14مجھے سوچوں میں گم پا کر سلاب خان معذرت کرنے لگا
16:16جوان میں ایک بار پھر معذرت کرتا ہوں
16:18آپ کو روشن خان کی وجہ سے اتنی زہمت اٹھانا پڑی
16:21بلکہ اب تو آپ ہمارے ساتھ پھس ہی گئے ہیں
16:23میں بھی کی مسکراہت سے بولا
16:25کسی کو کوسنے سے تو مسئلہ حل نہیں ہو سکتا
16:27وہ بولا یہی تو دکھ ہے
16:29کہ اس کا ازالہ اب نہیں ہو سکتا
16:31ہمارے دو دشمن قبیلے یکجہ ہو چکے ہیں
16:33اور ان کے ساتھ کچھ ازبک اور تاجک دہشتگرد بھی مل گئے ہیں
16:37یقیناً ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا
16:39میں نے مشورہ مانگا سردار اگر میں یہاں سے نکل جاؤں
16:42وہ بولا یقیناً ہمارے ساتھ رہنے میں آپ کی جان کو خطرہ ہے
16:45اس وقت یہاں سے جانے کا مطلب خودکشی ہی ہوگا
16:48میں بھی کی مسکراہت سے بولا خودکشی ہو یا لڑائی
16:51انجام دونوں کا موت ہی ہوتا ہے
16:53وہ بولا جنگ میں تمام ہارنے والے مر نہیں جائے کرتے
16:56میں نے فلسفیانہ انداز میں کہا
16:57دشمن کی آگے گھٹنے ٹیک کر جسم کو مردہ ہونے سے بچائے جا سکتا ہے
17:01روح کو نہیں
17:02وہ ترکی بہ ترکی بولا
17:04محلت کے حصول کے لیے گھٹنے ٹیکنا مسلحت کہلاتا ہے
17:07روحانی موت نہیں
17:08میں نے کہا اگر میں پکڑا گیا تو یقیناً انہیں مطمئن کر لوں گا
17:11وہ بولا ہمارے ساتھ کچھ پشاور کے مہمان بھی موجود ہیں
17:14جن کی بابت ہمارے دشمن اچھی طرح جانتے ہیں
17:16میں نے پوچھا کیا مطلب
17:17وہ اتمنان سے بولا مطلب یہ کہ وہ آپ کو بھی ہمارا دوست سمجھیں گے
17:21جبکہ آپ کا لہجہ اور زبان اس بات کی تصدیق کر دے گا
17:24میں بیبسی سے سر ہلا کر رہ گیا
17:26اس نے پوچھا اچھا اپنی جان بچانے کے لیے کوئی فائر وغیرہ کر لوگے
17:29میں صاف گوئی سے بولا کسی بے گناہ کی جان لینا مجھے گوار نہیں
17:33ان میں سے کوئی بھی میرا دشمن نہیں ہے
17:35بلکہ دیکھا جائے تو ان سے زیادہ میرے دشمن غزنی خیل کے وہ افراد ہیں
17:39جن کی وجہ سے مجھے اس جان لیوہ صورتحال میں پھسنا پڑا
17:43سیلاب نے مدافعانہ لہجہ اپناتے ہوئے کہا
17:45آپ کچھ زیادہ ہی غلط سوچنے لگے ہو
17:47میں نے کہا آپ کا میری سوچ کو غلط قرار دینا ظاہر کر رہا ہے
17:51کہ آپ نہائیت ہی سیدھے آدمی ہیں
17:52اور اتنے سیدھے آدمی کو سرداری نہیں جچتی
17:55وہ جھیمتے ہوئے بولا تنز اچھا کر لیتے ہو
17:57میں نے کہا ایسی صورتحال میں تنز کے علاوہ کیا بھی کہہ جا سکتا ہے
18:00وہ بولا میرا خیال ہے ہم نے آپ کو جان بوچ کر نہیں بھانسا
18:03یہ صورتحال تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی
18:06اس کے مسلسل معذرتی رویے نے میرے دل سے قدورت دور کر دی
18:10میں نے اس بات میں سر ہلاتے ہوئے کہا جانتا ہوں
18:12یہ خواری مقدر میں لکھی تھی
18:14روشن خان غریب تو بہانہ ہی بن گیا تھا
18:16میں نے پوچھا یہ روشن خان کی پارٹی اب تک واپس کیوں نہیں لوٹی
18:20خود کلامی کے انداز میں بڑھ بڑھاتے ہوئے وہ ریڈیو سیٹ پر انہیں پکارنے لگا
18:24مگر کافی دیر پکارنے کے بعد بھی اسے کوئی جواب محصول نہ ہوا
18:27میں نے کہا آپ نے دیر کر دی سردار
18:29دشمنوں کے گھیراوں کی خبر ملتے ہی انہیں بلا لینا چاہیے تھا
18:32وہ پریشانی کے عالم میں بولا میرے دھیان میں ہی نہیں رہا
18:35میں نے کہا میدان جنگ میں سردار کو ایسی بے دھیانیاں راست نہیں آتی
18:39وہ بولا جوان آپ اپنی عمر سے بہت بڑی باتیں کر رہے ہیں
18:42میں نے کہا حکمت عمر سے نہیں تجربے سے آتی ہے سردار
18:45اس نے مانی خیز انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا ہم
18:48کافی تجربے کار دکھتے ہو
18:49اچانک ریڈیو سیٹ بول اٹھا
18:51کسی نے ہیجان خیز لہجے میں سردار کو پکارتے ہوئے انکشاف کیا
18:55سردار روشن خان اور صغیر واپس لوٹائے ہیں
18:57دونوں شدید زخمی ہیں
18:59اور روشن خان نے بتایا ہے کہ ان کے تین ساتھ ہی باقی نہیں رہے
19:02سردار نے کہا دونوں کی مرہم پٹی کرواو میں وہیں آ رہا ہوں
19:05یہ کہتے ہوئے وہ مہتات انداز میں چلتا ہوا مورچے سے باہر نکل گیا
19:08جبکہ میں نے پاؤں پسارتے ہوئے اپنی کلیشن کو گودھ ملی
19:12اور اپنے سفری تھیلے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا
19:14میں ایک انجانی مصیبت میں بھس چکا تھا
19:17اور اب میں انتظار کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا

Recommended